فروخت کر کے دعوت کا انتظام کیا اور لوگوں کو صلائے عام دے دی اور خود یہ وقت بھی فاقہ سے گزارا۔
سخاوت و داد و دہش کا یہ شوق یا جذب و حال اس قدر بڑھ گیا تھا کہ ناممکن تھا کہ کوئی شخص ان سے ملے یا ان کے پاس سے بلا دعوت یا عطیہ کے خالی ہاتھ گزرجائے۔
ایک مرتبہ ان کے مکان کے پاس ایک بارات ٹھہری ، پوری بارات کو مہمانی میں لے لیا اور اس کے مصارف برداشت کئے۔
جاگیر کے دو تین گاؤں گھر والوں کے اخراجات کے لئے مخصوص کردئے تھے اور دو تین عزیز و اقارب و اہلِ محلہ کے لئے، باقی خود اپنے مصارف میں لاتے ، لیکن یہ مصارف صرف یہی تھے جس کا تذکرہ ابھی گزرا ہے۔
شجاعت و سخاوت کے ان اوصاف و کمالات کے ساتھ تعلق مع اللہ، انابت اور زہد و تقوی کی وہ دولت حاصل تھی جو اس قسم کے سارے اعمال کی جان ہے، اور جس کے بغیر بڑے سے بڑا کمال بے قیمت اور بڑی سے بڑی ریاضت و نفس کشی ناقابلِ اعتماد ہے، ان کی چچی (والدہ سید محمد ممتاز) بیان کرتی ہیں کہ کم عمری ہی سے نصف شب کے بعد بیدار ہوجاتے تھے اور نمازِ تہجد کے بعد قرآن مجید کی تلاوت فرماتے۔
دوسرے مشائخ کی طرح طلوع صبح تک اور عصر و مغرب کے درمیان مراقبہ کا معمول تھا اور اس دستور میں شاذ و نادر ہی فرق آتا تھا۔
اکثر اوقات تلاوت سے معمور رکھتے، ایک ہفتہ میں آسانی کے ساتھ ایک قرآن مجید ختم کرلینے کا معمول تھا۔
بیعت کی عام اجازت نہ تھی ، بہت مشکل سے بیعت کرتے تھے اور صرف