پوری طرح عامل، اور شب و روز سخاوت و ایثار سے مخمور)۔
ان کے ایثار و سخاوت بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں قربانی و مجاہدہ یا جذب و حال کے واقعات ایسے محیر العقول اور اس زمانہ کے معیار سے اس قدر بلند اور اس کے مزاج سے اتنے بعید ہیں کہ ان پر شاعری اور مبالغہ آرائی کا شبہ ہونے لگتا ہے، لیکن یہ واقعات اس شخص کے قلم سے ہیں جس کی ثقاہت شبہ سے بالا تر اور جس کا علمی و روحانی مرتبہ اور روحانیت و للہیت ناقابلِ تردید ہے، اور جس کے تذکرہ کے لئے خود ایک علیحدہ باب کی ضرورت ہے، ذیل میں اس سلسلہ کے صرف چند واقعات قلمبند کئے جاتے ہیں کہ اس سے زیادہ کی نہ ہم کو ضرورت ہے نہ ہمت۔
ایک مرتبہ لشکر میں سخت قحط پڑا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگوں نے اپنے کو فروخت کرنا شروع کردیا، سید محمد ہدیؒ نے ان میں سے تین سو آدمیوں کو خرید لیا اور جب تک قحط رہا ان کو کھلاتے پلاتے رہے، قحط ختم ہوا تو ان سب کو آزاد کردیا۔(۱)
لشکر ہی کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ تین فاقے ہوچکے تھے، خادم داؤد کسی جگہ سے سو روپیے کا انتظام کرکے لائے اور مصلحتاً اس کو چار جگہ چھپادیا، تھوڑی دیر میں ایک سائل آیا، خادم سے دریافت حال فرمایا کہ کوئی چیز ہے؟ انھوں نے جواب دیا نہیں ! (گفتند بر پائے من دست بگذار) مجبوراً ۲۵؍ روپیہ ایک جگہ سے لا کر پیش کئے، سب اس سائل کو عنایت فرمادئے۔ اسی طرح متواتر کئی سائل آئے اور سب روپیہ ختم ہوگیا اور چوتھے فاقہ کی نوبت آگئی، صبح کو داؤد سے کچھ کام کے لئے کہا، انھوں نے جواب دیا کہ بھوک کی وجہ سے قوت بالکل ختم ہوچکی ہے، فرمایا اے نامرد! چار فاقہ میں ہمت چھوڑدی ، اس کے بعد فرمایا کہ اس وقت مجھے غرباء کی دعوت کرنی ہے اس کا انتظام کرو، چنانچہ ایک جگہ سے ایک ہزار چار سو روپئے کی مالیت کا سونا قرض لیا اور اس کو
------------------------------
(۱) اعلام الہدی۔