کے مطابق تھی۔
مولانا سید محمد نعمانؒ جو مولانا سید محمد ہدی کے پوتے اور خود ایک عالمِ ربانی اور صاحبِ نسبت شخص تھے‘ شہادت دیتے ہیں کہ اکثر ایسا ہوا کہ کئی کئی فاقوں کے بعد کوئی چیز میسر آئی اور اسی وقت کوئی سائل یا صاحبِ حاجت آگیا اور وہ چیز اس کے حوالہ کردی،یہاں تک ہوتا کہ کوئی حاجت مند سائل آتا اور اس وقت کوئی چیز دینے کو نہ ہوتی تو گھر تشریف لے جاتے اور اپنی اہلیہ محترمہ کا کوئی زیور سائل کو عطا فرمادیتے، سونے چاندی یا سونے چاندی کے سامان تک کو ہاتھ لگانا پسند نہ فرماتے تھے۔
یہ حال کسی مجبوری یا غربت و افلاس کی وجہ سے نہ تھا ، کئی جگہ جاگیریں تھیں ، بڑے صاحبزادہ سرکار اعظم شاہ میں ایک اچھے منصب پر فائز تھے، خود بادشاہ کے لشکر میں ملازم تھے، اور اس کا مشاہرہ ملتا تھا، اس کے علاوہ اپنے والد ماجد کے مخلصین و اہلِ تعلق کی طرف سے ہدایا بھی آتے تھے، لیکن دل کا معاملہ کچھ اور ہی تھا اور اس کی وجہ سے ساری جاگیر و دولت ان کے حق میں بچوں کے کھیل، یا ہاتھ کے میل سے زیادہ بے وقعت اور کم قیمت ہوگئی تھی اور اتنی وافر آمدنی کے باوجود ہزاروں قرض ہوجاتا تھا۔
ایک مرتبہ ایک جاگیر سے ۱۲؍ ہزار دینار (سکہ عالمگیری) آئے اسی مجلس میں سب تقسیم فرمادیے اور دامن جھاڑ کر اٹھ گئے اور رات فاقہ سے گزاردی، صاحبِ ’’اعلام الہدی‘‘ ان کی اس شان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’درویش سیرت در لباس اہلِ دنیا و قلندر سریرت در صورت اغنیاء و کامل عامل آیہ کریمہ ’’لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون‘‘ بودو لیل و نہار کار ایشاں ایثار لوجہ اللہ الغفار بود۔‘‘
(اہل دنیا کے لباس میں درویش سیرت اور امراء و اغنیاء کے لباس میں قلندر صفت ’’لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون‘‘پر