غریب کمالات کے حامل تھے، مصنف’’سیرتِ علمیہ‘‘ نے اعلام الہدی کے حوالہ سے ان کے جو واقعات لکھے ہیں ان کو پڑھ کر متقدمین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کا اعجاز ظاہر ہوتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے:
’’اس امت کی مثال اس بارش کی طرح ہے جس کے متعلق یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کا پہلا حصہ بابرکت ہے یا بیچ کا یا آخر کا۔ أوکما قال علیہ الصلاۃ و السلام۔‘‘
ان کی سیرت میں سید نا زین العابدین کی اس شان کی جلوہ ریزی تھی جس کے متعلق فرزدق نے یہ مشہور شعر کہا تھا:
ما قال لا قط إلا فی تشہدہ
لو لا التشہد کانت لاؤہ نعم(۱)
مصنف ’’نزہۃ الخواطر‘‘ نے جو عموماً بہت جنچے تُلے الفاظ کا استعمال کرنے کے عادی ہیں اور القاب وغیرہ سے پرہیز کرتے ہیں ‘ ان کے متعلق یہ الفاظ لکھے ہیں :
’’لم یکن فی زمانہ مثلہ فی الإعطاء والکرم‘‘
سیرتِ علمیہ کے مصنف مولانا حکیم سید فخر الدین، اعلام الہدی مؤلفہ سید محمد نعمانؒ کے حوالہ سے ان کے داد و دہش اور جود و سخا کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’نہیں ‘‘ کہنا جانتے ہی نہ تھے، داد و عطا کے وقت ان کو اس کا خیال ہی نہ رہتا تھا کہ سیکڑوں دے رہے ہیں ،یا ہزاروں (۲)، اس کی فکر کبھی دامن گیر نہیں ہوتی تھی کہ اس قدر بذل و عطا اورمسلسل جود و سخا کے بعد گزر اوقات کیسے ہوگی اور ضروریات کیسے فراہم ہوں گی، ان کی شان ’’یؤثرون علی أنفسہم و لو کان بہم خصاصۃ‘‘
------------------------------
(۱) انھوں نے تشہد کے علاوہ کسی اور جگہ ‘لا’ (نہیں ) نہیں کہا ،اگر تشہد کا مسئلہ نہ ہوتا تو شاید وہ یہاں بھی ‘نعم’ یعنی ‘‘ہاں ’’ کہتے۔
(۲) سیرتِ علمیہ (قلمی)