قرآن مجید اس قدر اچھا حفظ تھا کہ ایک مرتبہ ان کے والد ماجد سید شاہ علم اللہؒ نے ان کو رمضان میں تراویح سنانے کے لئے نصیر آباد سے تکیہ بلوایا، ان کے چچا سید خواجہ احمد نصیر آبادی نے یہ سن کر فرمایا کہ جب تک میں تمھارے پیچھے پورا قرآن نہ سن لو ں گا تم کو اجازت نہ دوں گا، اب معاملہ نازک تھا، والد کی تعمیل ِ حکم میں چچا کی دل شکستگی تھی اور چچا کی اطاعت میں والد کی مخالفت، انھوں نے اس مسئلہ کو اس طرح حل کیا کہ رمضان کی پہلی شب میں پورا قرآن مجید ختم کردیا اور اپنے چچا کی دعا لیتے ہوئے صبح تکیہ روانہ ہوگئے۔
شجاعت و شناوری کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ کسی سفر میں دریائے گنگا عبور کرنا چاہا ، لیکن ملاح نے کسی وجہ سے کشتی نہ دی، ایک بہت بڑا بوجھ ان کے ساتھ تھا، انھوں نے لنگی باندھ لی، اور کچھ لوگوں نے بوجھ اٹھا کر ان کے سر پر رکھ دیا اور اس بوجھ کو لے کر سلامتی کے ساتھ دریا کے پار اترگئے۔
ورع و تقوی، سخاوت و انابت اور دوسرے اوصاف حمیدہ اور مکارمِ اخلاق میں اپنے والد کے نقش قدم پرتھے، سید شاہ علم اللہؒ کے انتقال کے بعد ان کی نیابت و جانشینی کا حق ادا کیا اور اسی روش پر گامزن رہے، بکثرت آدمیوں نے ان سے فیض حاصل کیا اور ان کی صحبت و تربیت میں رہ کر نسبت خاصہ سے بہرہ ور ہوئے اور بعض مریدین و اہلِ اختصاص کی صحبت میں وہ کیمیا اثری پیدا ہوئی کہ محض ان کے پاس چند لمحہ بیٹھ جانے سے لوگوں کا دل دنیا سے سرد ہوجاتا تھا اور فنائیت و بے نفسی کی کیفیت پیدا ہونے لگتی تھی۔(۱)
آخر میں بعض چیزوں سے دل شکستہ ہوکر اورنگ زیب عالمگیر کے لشکر چلے گئے، اور اپنے با کمال فرزند سید محمد ضیا کو اپنا جانشین مقرر کیا، اس کے کچھ ہی روز بعد
------------------------------
(۱) ان کے ایک مرید محمد اشرف اہلِ دل کے اس قافلہ میں زیادہ ممتاز تھے اور بڑے قوی نسبت بزرگ تھے، ان کا ذکر سیرتِ علمیہ اور برکاتِ احمدیہ میں بلند الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔