بھی کچھ اندازہ ہوگا جو ان کے اثرِ صحبت اور فیضِ تربیت سے ان کے مریدین و منتسبین میں پیدا ہوگئے تھے۔
سید محمد ولی ابتداء میں اٹاوہ میں ایک جگہ ملازم تھے، وہاں ایک سائیس کو ملازم رکھا، جب وطن واپس ہوئے تو وہ بھی ساتھ آیا یہاں آکر اس کی تنخواہ ادا کی اور واپس کردیا۔ تھوڑے دن کے بعد خیال آیا کہ اس کی تنخواہ میں ایک پیسہ باقی رہ گیا ہے، یہ خیال آتے ہی سخت پریشان ہوئے اور اسی وقت اٹاوہ کا سفر کیا وہاں پہنچ کر کوتوالی سے اس کے مکان کا پتہ چلایا اور اس کو بُلاکر بہت معذرت کی اور وہ پیسہ اس کے حوالہ کیا، اس نے ٹھہرنے کے لئے بہت اصرار کیا مگر انھوں نے قبول نہیں کیا اور اسی روز کاکوری چلے آئے ۔(۱)
ایک روز یہ لکھنؤ جارہے تھے، دیکھا کہ راستہ میں ایک سوار بہت سا اسباب ایک مزدور پر بار کیے ہوئے جا رہا ہے، اسباب بہت وزنی تھا اور مزدور کی طاقت سے باہر تھا وہ بیچارہ خوشامد کر رہا تھا مگر سوار ایک نہیں سنتا تھا اور لے چلنے پر مجبور کرتا تھا، ان کو اس بیچارہ کے حال پر ترس آیا ، یہ سوار کو فہمائش کرنے لگے کہ اتنی سختی نہ کرو، سوار نے ان سے بگڑ کر کہا کہ آپ کو بہت قلق ہے تو آپ ہی میرا سامان پہنچادیجئے، میں اس مزدور کو چھوڑے دیتا ہوں ، انھوں نے بے تکلف کل سامان لے کر اپنے سر پر رکھا اور ساتھ چلنے پر آمادہ ہوگئے، معاً سوار پر ایک ہیبت طاری ہوئی اور اس کو یقین ہوا کہ ضرور یہ کوئی ولی ہیں ، گھوڑے سے اُتر کر وہ قدموں پر گر پڑا اور عفو تقصیر کا خواستگار ہوا۔(۲)
’’تذکرہ مشاہیر کاکوری‘‘ کے مصنف نے ان کے جتنے حالات و واقعات قلمبند کئے ہیں ان سب میں شاہ علم اللہؒ صاحب کی سیرت و تربیت کا عکس نمایاں ہے، وہ لکھتے ہیں :
------------------------------
(۱) و (۲) تذکرہ مشاہیرِ کاکوری۔