خاندانی بزرگ، اور اپنے عہد کے ایک بلند مرتبہ شیخ و داعی کا تذکرہ لکھنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے، دوسری طرف جس کام کو ان کے جدِّ امجدنے شروع کیاتھا اس کی تکمیل کی عزت حاصل ہورہی ہے۔ مجھے اس تصنیف کا علم اس وقت ہوا جب کتاب کا بڑا حصہ لکھ چکے تھے اور اس وجہ سے مسرت ہوئی کہ یہ موروثی سعادت ان کے حصہ میں آئی اور ایک مفید کام کی توفیق ملی، انھوں نے حضرت شاہ صاحب کے تذکرے ہی پر اکتفاء نہیں کیا ، بلکہ ان کی اولاد و احفاد اور ان کے خلفائے امجاد کا تذکرہ بھی شامل کیا، اس طرح یہ کتاب ایک طرف جامع دوسری طرف عصرِ حاضر کے ذوق و اسلوب کے مطابق ہوگئی، جس سے ہم اس دورِ فتن میں جس میں نہ صرف بدعات کا دور دورہ ہے؛ بلکہ لا دینیت، وحدتِ ادیان، اور کفر و ایمان کی مساوات اور ہر قسم کے حدود و قیود و تعینات کے انکار، نیز خاتم النبیین ﷺ کے ہادئ سبل، ختم الرسل اور امام الکل ہونے کے انکار کا رجحان ایک دعوت اور فلسفہ کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک ایسے زمانہ میں ، ایک ایسی شخصیت کی سیرت یقیناً مفید و مؤثر ہوگی جس کا اس حقیقت پر ایمان و اذعان تھا اور ساری عمر اسی کے اعلان میں مصروف رہی کہ:
محمد عربی کا بروئے ہر دوسرا ست
کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سرِ او
ابو الحسن علی
۴؍جمادی الآخرۃ ۱۳۹۰ھ
پنجشنبہ: ۹؍جولائی ۱۹۷۰ء