میں متعدد جگہ ایک حدیث کا مضمون نقل کیا ہے کہ تمام اعمال بارگاہِ ایزدی میں رد کئے جانے کا اندیشہ رکھتے ہیں سوائے ان اعمال کے جو میری متابعت میں کئے گئے ہوں ۔
انھوں نے ایک شاہ راہ کی دعوت دی ہے جو سب سے محفوظ و مامون شاہراہ ہے اور جس پر قدم رکھنے کے بعد بلا کسی اندیشہ کے آدمی سیدھا منزلِ مقصود پر پہنچ سکتا ہے ، جس میں بار بار معلومات حاصل کرنے اور شبہ کرنے کی ضرورت اور قبولیت و نا مقبولیت کا کوئی خطرہ نہیں ، اگر اخلاص کی دولت حاصل ہے جو اس راہ کی شرطِ اول ہے اور خدا کی رحمت شامل ہے جو ہر چیز کی اصل ہے تو پھر کسی تفصیل اور ادھیڑ بُن میں پڑنے کی حاجت نہیں ، اس وقت یہ راہ مؤمن کے لئے وادئ سینا ہے اور اس کا ہر قدم معتبر اور ہر پیش قدمی مبارک ہے ؎
وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادئ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن، و ہی فرقاں ، و ہی یٰسین، و ہی طہٰ
اس میدان میں سید شاہ علم اللہؒ نے جو فتوحات حاصل کیں اور ان کے شہبازِ محبت نے جن رفعتوں پر اپنا آشیانہ بنایا اور ان کی باریک بیں اور حق پسند نگاہ نے سنت کی جن نزاکتوں اور لطافتوں کی اپنی عملی زندگی سے نشان دہی کی اور ان سنتوں کی حلاوت و لذت اور کیف و سرور کا پردہ فاش کیا جو قربانی اور عزیمت اور مجاہدہ و صبر کے بعد میسر آتی ہیں ، انھوں نے ان سنتوں کے لئے نفس کی بڑی سے بڑی آزمائش اور اپنے ماحول اور خاندان بلکہ خود خانقاہ کے معمولات و مسلمات کا جس جرأت اور جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کیا، انھوں نے جس طرح سب سے پہلے اپنے اہل و عیال اور اپنے خویش و اقارب کو اس عزیمت کا عادی بنایا اور سب سے پہلے اپنے گھر میں اس کا