مجاہدات اور ریاضتوں ، ذکر و فکر اور کشف و کرامات اور علوم و معارف کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں بھی ان کی زندگی میں موجود تھیں ، اور اس عہد کے اسلامی ہند میں یہ کوئی ایسا اہم مسئلہ نہ سمجھا جاتا تھا جس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہو اور جس کی وجہ سے مدرسہ و خانقاہ اور مسلمانوں کی زندگی میں ایک بڑا خلا واقع ہو رہا ہو۔
اس عہد اور اس ماحول میں احیائِ سنت کا صور اس بلند آہنگی سے پھونکنا اور اپنی عملی زندگی سے اس کی مکمل اور زندہ تشریح اور پھر پوری قوت اور جرأت کے ساتھ اس کی دعوت و اشاعت اور اس راہ کی تمام نزاکتوں اور دشواریوں بلکہ قربانیوں پر ہمہ وقت آمادگی،اور بڑے بڑے امتحان اور آزمائش میں ثابت قدمی، کوئی معمولی بات نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ اوصاف و کمالات ہیں جو اس عہد میں سید شاہ علم اللہؒ کے علاوہ کسی اور شخصیت پر راس نہیں آتے۔ اورنگ زیب کے خواب کا مشہور تاریخی واقعہ کتاب میں پہلے گزرچکا ہے، جب اورنگ زیب نے ان علماء و صلحاء سے دریافت کیا کہ یہ خواب سنتے ہی یہ تعبیر ان کے ذہن میں کیسے آئی تو انھوں نے جواب دیا کہ اتباعِ سنت میں کوئی دوسرا آدمی ان کا ہمسر نہیں ، شرف فرزندی کے ساتھ اتباعِ سنت، عشقِ رسولؐ کی دولت اور سنن و مستحبات کے اس درجہ اہتمام و التزام میں وہ اکثر علماء و مشائخ سے فائق نظر آتے ہیں ۔(۱)
سید شاہ علم اللہ کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے سنت سے عشق اور عزیمت پر عمل سے رہروانِ راہِ وفا کے لئے ایک ایسی شمع روشن کردی جس کی روشنی اور تابانی سیکڑوں سال گزرنے کے باوجود ہم تک پہنچ رہی ہے، انھوں نے اپنے عمل سے یہ بتایا کہ معرفت کا سب سے مضبوط زینہ اور بارگاہِ خداوندی میں قبولیت اور اقلیم ولایت میں داخلہ کا سب سے مقبول پروانہ اتباعِ سنت ہے، انھوں نے اپنے رسالہ قوت العمل
------------------------------
(۱) بحرِ زخارو در المعارف ملفوظات مولانا شاہ غلام علیؒ۔