ہے، اور لکھا ہے کہ یہ آیت صرف اس کھلی ہوئی ہوا پرستی پر منطبق نہیں ہوتی جس کو سب جانتے ہیں یعنی احکامِ شریعت کی مخالفت اور اپنی خواہشات کی پیروی بلکہ وہ سنن و اعمال جن کے متعلق کتاب و سنت کی کھلی ہوئی تصریح موجود ہے، ان میں اپنی خواہش، اپنے مزاج اور اپنی عادتوں ، اپنے مصالح یا اپنی رائے کی بنا پر تفریق بھی کسی طرح درست نہیں ، اور وہ بھی اس میں داخل ہیں ، ہر وہ چھوٹا بڑا حکم اور ہدایت جو قرآن مجید میں موجود ہے اس میں نفس کی مداخلت اور طبیعت کی شرکت جب ہی ہوسکتی ہے جب ہوا پرستی کسی نہ کسی درجہ میں موجود ہو۔
اس بات کی اہمیت اچھی طرح سمجھنے کے لئے یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یہ وہ زمانہ ہے جب ہندوستان میں حدیث کی اشاعت اچھی طرح نہ ہوئی تھی، اور مجدد صاحب اور خواجہ محمد معصومؒ کے سلسلہ کے سوا ہندوستان کے تقریباً ہر گوشہ میں وحدت الوجود کا بڑا زور اور سماع وغیرہ کا بہت رواج تھا، اچھے اچھے دینی گھرانوں اور مشائخ کے خانوادوں میں بھی بہت سی سنتیں متروک اور فراموش ہوگئی تھیں اور ان کی جگہ رواجی اعمال نے لے لی تھیں ، بہت سی وہ چیزیں جواب واضح ہیں اور جن کے بارے میں اب کسی حلقہ میں بھی شک اور التباس نہیں پایا جاتا وہ اس وقت اس درجہ صاف اور روشن نہ تھیں ۔
رنگے ہوئے کپڑوں ، تعظیمی سلام، محافلِ سماع اور اسی طرح مشیخت کے بہت سے دوسرے لوازم و آداب جن کی کتاب و سنت سے کوئی سند نہ تھی، پھر ان کے بعد وہ اعمال جو رخصت کے دائرہ میں آتے ہیں اور جن کی شریعت کی نظر میں صرف گنجائش نکل سکتی ہے، اور جو مباحات کہلاتے ہیں ان کا بکثرت رواج تھا، اور اودھ اور اس کے اطراف میں سید شاہ علم اللہؒ کے چاروں طرف ایسے صوفیہ و مشائخ خاصی تعداد میں موجود تھے جو اپنے مقام بلند کے باوجود ان چیزوں سے محفوظ نہ تھے، اور طویل