(ہر وہ حکم جو اباحت اور ممانعت کے درمیان دائر ہو اس سے رک جانا ضروری ہے۔ حدیث میں یہ مضمون ا ٓیا ہے کہ بہشت کے تمام اعمال روکے جانے کا خطرہ رکھتے ہیں سوائے اس عمل کے جو میری پیروی و متابعت میں ہو نیز حضرت عمرؓ کا یہ قول کہ ہم شدت احتیاط میں خیر کے ستر دروازے محض اس ڈر سے چھوڑدیتے ہیں کہ کہیں شر میں نہ پڑ جائیں ۔)
وہ اعمال جو نہ صرف عام مسلمانوں بلکہ صالحین اور مشائخ و علماء میں بھی رائج تھے، اور جن کو ماحول‘ دستور‘ اور خاندانی رسوم و عادات کے دباؤ سے قوت مقاومت کی کمی سے یا کسی اور وجہ سے محض اس لئے گوارا کرلیا جاتا تھا کہ ان میں کوئی قباحت نہیں ہے اور شریعت میں اس کی گنجائش نکل سکتی ہے، اسی طرح بعض ان سنتوں سے بے پرواہی جو رواج و عادت کے خلاف ہیں اور جن پر عمل کرنے کے لئے کچھ قربانی، کچھ مقاومت اور ہمت کی ضرورت پرتی ہے، و ہ سنن و اعمال سید شاہ علم اللہؒ کے نزدیک حد درجہ قابلِ احترام اور لائقِ اہتمام تھے، وہ اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی اور نفس کی شدید سے شدید تر مخالفت میں بھی پس و پیش نہ کرتے تھے، ان کے ہاں (جیسا کہ ایک جگہ عرض کیا جاچکا ہے) سنت میں کوئی تقسیم نہ تھی، جس طرح سرمہ لگانا، خوشبو لگانا یا کھانے کا برتن صاف کرنا سنت ہے، اسی طرح بوجھ اُٹھانا، گھر کا کام کرنا، اور مریدین و محبین کی جماعت کثیرہ کے باوجود ان کے ساتھ ہر کام میں شرکت اور ان سے عدم امتیاز اور خلق کے رجوع کے باوجود اپنے اہلِ تعلق سے برابر والوں اور ہم جنسوں کا سا سلوک بھی سنت ہے، لیکن پہلی سنتیں آسان اور مرغوب ہیں اور دوسری سنتیں نفس پر شاق اور طبیعت کے لئے نا گوار ہیں ، انھوں نے اپنے رسالہ قوت العمل میں قرآن مجید کی اس آیت : ’’ أ رأیت من اتخذ إلٰہہ ہواہ‘‘ سے بار بار استشہاد کیا