عزیمت کی یہ عاشقانہ ادا ان کی زندگی کے آخری دن تک قائم رہی اور کسی موقع پر بھی اس میں فرق نہ آیا، عزیمت کی اس یکسانیت اور مجاہدات کے دوام سے متأثر ہو کر ان کے معاصر شیخ علامہ عبد الحکیم سیالکوٹی نے یہ شہادت دی کہ:
’’اکثر مشائخ سلوک کی ابتدا میں ریاضتیں کر کے آخر میں فارغ اور سبکدوش ہوجاتے ہیں لیکن شاہ صاحب نے اول روز سے تنگی و سختی و فقر کو راحت سمجھ کر اور فقر و فاقہ کو سنت کی پیروی میں جو اختیار کیا تو آخر تک اس میں ذرا فرق آنے نہیں پایا اور لذاتِ دنیاوی کو اپنے پاس نہیں آنے دیا۔‘‘ (۱)
لیکن عزیمت کا یہ عنوان صرف مجاہدات اور ریاضتوں تک محدود نہ سمجھنا چاہئے، ہر وہ کام جو رخصت کے سوا ہو عزیمت ہے، اور سید شاہ علم اللہؒ کے یہاں جو عزیمت نظر آتی ہے وہ در اصل یہی ہے اور اسی میں ان کا کمال پوشیدہ ہے ان کی زندگی کے مطالعہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ رخصت کی تلاش اور عزیمت سے فرار ایک مردِ مؤمن کی شان سے بہت فروتر اور بعید سمجھتے تھے اور سب کو اس کی دعوت دیتے تھے کہ وہ عزیمت پر عمل کریں اور سنت کو کسی وقت بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔ قوت العمل میں یہ بات انھوں نے متعدد جگہ مختلف طریقوں سے لکھی ہے، ایک جگہ سے اقتباس پیش کیا جاتا ہے:
’’ہرحکمے کہ دائر میان اباحت و نہی است وجب الکف عن العمل و در مضمون حدیث کہ جمیع اعمال بہر بہشت بالائے خوف روا است الا عملے کہ بمتابعت من کند و قول حضرت عمر رضی اللہ عنہ: نحن نترک سبعین بابا من الخیر مخافۃ أن نقع فی الشر۔‘‘
------------------------------
(۱) نتائج الحرمین۔