۱- سنت سے عشق۔ ۲- عزیمت پر عمل۔
ان دو چیزوں میں حضرت سید شاہ علم اللہؒ نے جن بلندیوں پر اپنا نشیمن بنایا وہاں ہر با کمال اور صاحب احوال کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ ان کی اس مبارک زندگی کا آغاز جس کی کچھ جھلکیاں کتاب میں پیش کی گئی ہیں ۔ اس عزیمت کا آئینہ دار ہے، جس کے لئے قرآن مجید میں ہی کہا گیا: ’’واصبر کما صبر أولو العزم من الرسل‘‘(۱) ’’واصبر و ما صبرک إلا باﷲ‘‘ (۲) ، ’’یا بني أقم الصلوۃ و امر بالمعروف وانہ عن المنکر و اصبر علی ما أصابک، إن ذلک من عزم الأمور‘‘(۳)یہ عزیمت ان کے آغازِ شباب میں پوری آب و تاب کے ساتھ ملتی ہے، عمر کے اس دور میں جس میں سیر و شکار اور خوش پوشاکی اور خوش وضعی کے سوا نوجوانوں کو کسی اور چیز سے دلچسپی نہیں ہوتی، انھوں نے شاہجہاں کے دربار کی بہار خوب اچھی طرح دیکھنے کے باوجود چند ہی روز میں اپنے لئے ایک نئے راستہ کا انتخاب کرلیا اور یہ شعر ؎
از دل بروں کنم غمِ دنیا و آخرت
یا خانہ جائے رخت بود یا سرائے دوست
پڑھتے ہوئے دولت کے اس انبار سے دامن جھاڑ کر واپس آگئے، اور پھر اس نوجوان نے جس نے چند ہی دن کے اندر بادشاہ کا اعتماد حاصل کرلیا تھا‘ صبر و عزیمت اور استقامت کی وہ نظیریں قائم کیں ‘ جن کے مطالعہ سے مردہ و یخ بستہ دلوں میں بھی قوت اور حرارت پیدا ہوجاتی ہے اور طائرِ ہمت و شہبازِ محبت پرواز کے لئے پر تولنے لگتا ہے۔
------------------------------
(۱) ۱ور صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا۔
(۲) صبر کرو اور نہیں ہوسکتا صبر مگر اللہ کے سہارے پر۔
(۳) اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو تم کو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرو، بے شک یہ بڑی عزیمت کے کاموں میں ہے۔