ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
وضاحت سے لکھا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ چوں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے بھی اور عقلاً ًبھی یہ بات مسلم ہے کہ کسی چیز میں فائدہ ہونا جواز کے لیے کافی نہیں ؛بل کہ جواز کی اہم شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی نقصان نہ ہو یا کم ازکم یہ کہ معتد بہٖ نقصان نہ ہو ، اسی لیے شریعت میں بہت سی چیزیں فائدہ ہونے کے باوجود ناجائز ہیں ؛کیوں کہ ان میں فائدے کے ساتھ کچھ نقصان بھی ہے ، شراب اور جوے میں فائدہ ہونا تو قرآن میں مصرح ہے، مگر اس کے باوجود اسلام میں اس کو ناجائز قرار دیا گیا ہے ۔ جب یہ بات سمجھ میں آگئی، تو اب اصل مسئلے کی طرف آئیے ۔ ٹی- وی کو اگر اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کے لیے استعمال کریں گے، تو اس سے ہوسکتا ہے وہ فائدہ مرتب ہو، جو آپ نے بیان کیا ہے ؛مگر اس کے ساتھ ساتھ اس میں گناہ بھی شامل ہوگا؛کیوں کہ اس میں جان دار کی تصاویر ہوتی ہیں اورجان دار کی تصاویرجمہور علمائے امت کے نقطۂ نظر کے مطابق اسلام میں ناجائز ہیں اور ظاہر ہے کہ ناجائز کام کے ذریعے اسلام کی اشاعت جائز نہیں ہے؛ لہٰذا اگر ٹی- وی چینل (T.V.Channel) کی بات اُٹھا نا ہے، تو سب سے پہلے اس مسئلے کو حل کر نا چاہیے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے تصویر کا کیا حکم ہے ؟ اور ظاہر ہے کہ جمہور امت کے نقطۂ نظر کو چیلنج کر نا کسی کے لیے آسان نہیں ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ٹی-وی کے ذریعے اسلام کی تبلیغ و اشاعت ہوسکتی ہے، جیسے اور مذاہب کے لوگ یہ کام کررہے ہیں ،تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ یہ کیا ضروری ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ جو کریں ،ہم بھی وہی کیا کریں ؟ آج جدت پسند طبقے کی سوچ اور فکرکی پرواز یہ ہے کہ وہ غیروں کی نقالی