ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
لوگوں میں عام ہو گی اور اس کی بنا پر لوگ اس میں ملوث ہوں گے ۔ جب یہ اصول معلوم ہو گیا، تو اب اس پر نظر کیجیے کہ ٹی- وی مختلف حیثیتوں سے حرام و نا جائز ہے ( جس کی تفصیل اصل رسالے میں ملاحظہ کیجیے ) ایک تو اس میں تصویر ہے، جو کہ ناجائز ہے، دوسرے اس میں جو پروگرام نشر کیے جاتے ہیں ، ان میں بعض بے حیائی و فحش اور جرائم وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں ، جن سے ایک انسان کا متأثر ہونا فطری امر ہے اور اس کی وجہ سے اس کا محرمات میں ابتلا بھی تقریباً یقینی یا کم از کم محتمل ضرور ہے،اسی طرح ٹی- وی سے جسمانی و روحانی بے شمار مفاسد و خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور نہ صرف افراد کو،بل کہ معاشرے کو فاسد کر دیتی ہیں ؛اس لیے جیسا کہ عرض کیا گیا اس کے حرام ہو نے کی وجہ سے اس کی خرید و فروخت بھی ناجائز ہے ۔ بعض لوگ ان سب باتوں سے صرفِ نظر کرکے اس کی بعض مفید خبروں اور کچھ اچھی باتوں کی وجہ سے اس کو حلال و مباح قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ بات فقہی اصول و مزاج کے سر اسر خلاف ہے ؛کیوں کہ جب کسی چیز میں حلال و حرام کا اجتماع ہو، تو حرمت کو ترجیح دینا ایک مسلمہ قاعدہ ہے ۔ علامہ ابن نجیم المصری نے لکھا ہے : إذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام ۔(۱) غرض یہ کہ ٹی- وی ناجائز ہے اور جب وہ ناجائز ہے، تو اس کا خریدنا اور بیچنا سب ناجائز ہے ۔ پھر یہ خریدنا اور بیچنا خواہ اس آدمی کی طرف سے ہو، جو مستقل اس کا کاروبار کرتا ہے یا اس کی جانب سے ہو، جو اتفاقاً خرید یا بیچ رہا ہے، ہر صورت میں یہ ناجائز ------------------------- (۱) الأشباہ والنظائر:۱؍۳۳۵