ٹیلی ویژن اسلامی نقطہ نظر سے |
یلی ویژ |
|
سن لیجیے۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالی نے حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی کے انتقال کے بعد ،جب ان کی خدمت میں اس آلے کے بارے میں مسلسل سوالات آنے لگے ،تو دوبارہ غور و خوض کیا اور دوبارہ اہلِ سائنس کی طرف رجوع کیا اور متعدد ریڈیو اور صوتیات کے محکموں سے سوال کیا کہ اس آلے کی آواز اصل آواز ہے یا آواز کی نقل ؟ تو اس پر اب تمام محکموں سے بالاتفاق یہ جواب آیا کہ اس کی آواز بعینٖہ متکلم کی آواز ہوتی ہے ، اس تحقیق نے اس بنیاد ہی کو جڑ سے ختم کردیا ،جس کی بنا پر حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی نے فسادِ نماز کا حکم لگایا تھا ،تو حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالی نے اور دیگر اکابر نے اس آلے کے استعمال کی اجازت دی ۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ’’ اس غور و فکر کے زمانے میں بھی سوچتا رہا کہ اگر آج حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ تعالی دنیا میں تشریف فرما ہوتے اور اس ابتلائے عام کا مشاہدہ کرتے ہوئے یہ تحقیق ملاحظہ فرماتے، تو کیا وہ اپنے سابق فتوے پر جمے رہتے؟ یا اپنی اس خدا داد حق پرستی اور عوام کے لیے سہولت کوشی کے پیشِ نظر آپ اپنے اس فتوے کو بدلتے؟ مجھے اپنے ناقص غور وفکر اور حضرت رحمہ اللہ تعالی کے ذوق کا جس قدر حصہ حاصل تھا، اس نے یہی جواب دیا کہ’’ ان حالات میں حضرت ضرور فساد ِنماز کے فتوے سے رجوع فرمالیتے‘‘۔ (۱) اب بتائیے کہ غلطی علما کی ہے یا اہلِ سائنس کی، جنہوں نے پہلے تو اس آلے کی آواز کو نقل اور باز گشت قرار دیا پھر اس کو اصل آواز کہہ دیا؟ اس تفصیل سے واضح ------------------------- (۱) دیکھو:امداد الفتاویٰ:۱/۸۴۶