آیت کے بعد ایک حدیث بیان کی ہے ’’انماا لاعمال بالنّیات ‘‘جس سے اشارہ کیا کہ اگر کسی شخص کا عقیدہ تو حید اور رسالت کے بارے میں صحیح ہو اور عمل بھی ظاہر کے اعتبار سے درست ہو لیکن اخلاص نہ ہو، وہ عمل خالص اللہ کی رضا کے لئے نہ ہو بلکہ کوئی دنیا وی غرض شامل ہو تو وہ عمل بھی خدا کے یہاں مقبول نہیں جیسا کہ آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں ۔
احادیث میں بہت سے واقعات بیان کئے گئے ہیں کہ بڑے بڑے اعمال اخلاص نہ ہونے کی بنا پر جہنم میں جانے کا باعث ہوں گے کیونکہ ان میں اخلاص نہ تھا اور بظاہر ایک چھوٹا سے چھوٹا عمل اخلاص کی بدولت نجات کا ذریعہ ہوگا،یہ اعمال کا سلسلہ انسان کی زندگی تک رہتا ہے اس کے خاتمہ پر اعمال کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے،اس کے بعد ایک دوسرا عالم شروع ہوتا ہے جہاں اس کے اعمال کا ثمرہ ظاہر ہوگا کہ کس کا عمل وحی الہی کے مطابق تھااور کس کا نہ تھا،جس کے امتحان کے لئے میزان عمل قائم کی جائے گی۔
چونکہ اعمال کی بناء وحی الہی پر ہے اس وجہ سے وحی کا بیان کتاب کے شروع میں لائے بعد میں ’’ کتاب الایمان ‘‘اور’’ کتاب العلم ‘‘کو بیان کیاکیونکہ بغیر صحیح عقیدے اور صحیح علم کے عمل صحیح نہیں ،اس کے بعد پوری کتاب میں اعمال کو بیان کیا اس کے بعد آخر میں اس باب کو لائے کیونکہ اعمال کا نتیجہ اور ثمرہ اعمال کے خاتمہ کے بعد ظاہرہوتا ہے اس لئے جس چیز سے اعمال کا ثمرہ ظاہر ہوگا، یعنی میزان اس کوآخر کتاب میں لائے،اس وقت کتاب کی ابتداء اور انتھا میں مناسبت کے سلسلہ میں میرے ذہن میں جو کچھ آیا وہ عرض کیا،ہرشخص اپنے ذوق کے مطابق مناسبت بیان کرتا ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔
(۲)اب اس باب کے سلسلہ میں کچھ باتیں عرض کرتا ہوں
جس طرح شروع باب میں ایک آیت اورایک آیت لائے تھے اسی طرح اس