،اصل چیز حدیث سے جو حاصل کرنے کی ہے وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی اور آپ کے اخلاق حسنہ ہمارے اندر آجا ئیں ۔
مجھ سے جتنا ہو سکے گا اپنی طرف سے محنت کرنے میں کسر نہ اٹھا رکھوں گا، مطالعہ کروں گا، جو بات سمجھ میں نہ آئے گی صاف صاف کہدوں گا کہ میری سمجھ میں نہیں آیا، یہ بھی ایک طریقہ ہے کہ جوبات معلوم نہ ہو صاف کہہ دے کہ یہ میری سمجھ میں نہیں آیا، اس میں عار کی کیا بات ہے، کیا ہر ایک کو ہر بات سمجھ ہی میں آجا تی ہے، اسلئے جو بات میری سمجھ میں نہ آئے گی صاف کہددوں گا کہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔
اب تو میرا بڑھا پا آگیا اگر دس سال پہلے دورہ شروع ہوتا تو اس وقت اچھا ہوتا، پہلے سوچا ہی نہ تھا ، اس وقت مطالعہ کرنے اور محنت کرنے کی قوت تھی، حافظہ بھی قوی تھا اب تو حافظہ کمزور ہو گیا ہے ، لیکن اللہ کو منظور نہیں تھااسی میں خیرومصلحت ہو گی، اللہ کی طرف سے جو فیصلہ ہو وہی بہتر ہے۔
اخیر عمر کا وظیفہ اور تحدیث نعمت
فرمایا ہمارے اکابر کا یہی حال رہا ہے کہ اخیر عمر میں تمام علوم سے یکسو ہو کر حدیث ہی سے اشتغال رکھتے تھے، اللہ کا شکرہے اس نے مجھے بھی اخیرعمر میں حدیث میں لگا یا ، یہ سب اللہ کا کرم ہے، ورنہ کہاں میں اور کہاں بخاری ،میرے خواب میں بھی نہیں تھا اور میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں بخاری شریف پڑھائوں گا، یہ فرما کر حضرت کی آنکھوں سے آنسو جا ری ہو گئے۔اور فرمایا کہ جس کو جو کچھ کرنا ہو زندگی میں کر لے اخیر عمر میں تو تسبیح خود بخود ہا تھ میں آجا تی ہے۔