یہاں موجود تھے، جب امام بخاری بغداد پہنچے تو ان کا امتحان لیاگیا، وہاں کے علماء نے دو سو حدیثیں منتخب کیں ، اور دس آدمیوں کو دس دس حدیثیں یاد کرادیں ، جن کا متن اور سند بدل دیا تھا ایک کی سند کو دوسرے کے متن سے جوڑ دیا تھا، جب امام صاحب تشریف لائے اور مجلس منعقد ہوئی تو ان میں سے ہر ایک نے وہ غلط حدیثیں باری باری سے پڑھنا شروع کیا، ہر ایک حدیث پر امام بخاری لا اعرفہ فرماتے ، عوام میں چہ میگوئیاں ہوئیں لیکن علماء محققین نے اندازہ کرلیا کہ یہ متن میں کامل معلوم ہوتے ہیں ، جب سب نے وہ تمام حدیثیں سنادیں تو امام بخاری نے نمبر وار ہر ایک کو بلایااور فرمایا کہ تم نے پہلی روایت اس طرح پڑھی یہ غلط ہے، صحیح اس طرح ہے، اس طرح ترتیب وار سب کی اصلاح کردی،اب سب کو یقین ہو گیا کہ یہ ماہر فن ہیں ۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ تعجب اس پر نہیں کہ انہوں نے غلطی کی اصلاح کردی وہ تو حافظ حدیث تھے ان کا تو کام ہی یہ ہے، تعجب تو درحقیقت اس میں ہے کہ غلط حدیث کو ایک ہی مرتبہ سن کر ترتیب وار محفوظ رکھا۔
طلب حدیث کے لئے حجازاوربصرہ کا سفر
امام بخاری نے تمام کتب متداولہ اور مشائخ بخارا کی کتابوں کو محفوظ کرلیا اس کے بعد سولہ برس کی عمر میں حجاز کا قصد کیا،سب سے پہلے حج بیت اللہ کا ارادہ کیا والدہ ماجدہ اور بھائی احمد کے ساتھ یہ سفر ہوا، والدہ اور بھائی کو حج کے بعد وطن واپس کردیا اور خود مکہ معظمہ میں طلب علم کے لئے قیام کیا۔
۲۱۲ھمیں مدینہ طیبہ کا سفر کیا اور اٹھارہ برس کی عمر میں ’’ قضایا الصحابۃ والتابعین‘‘ لکھی جس سے امام کی شہرت میں اضافہ ہوا۔
اور اسی سفر میں مدینہ طیبہ ہی میں ’’تاریخ کبیر‘‘ کا مسودہ چاندنی رات میں لکھا