کا لحاظ کیا اہے اسی طرح آخری باب اور شروع باب میں مناسبت کا لحاظ رکھا ہے۔
ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ اشکال ہو کہ اللہ پاک کو تو ہر شخص کے عمل کی خبر ہے تو پھر وضع میزان کی کیا ضرورت ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ وضع میزان اللہ پاک اپنے علم کے لئے نہیں قائم کرے گا بلکہ بندے کے مشاہدے کے لئے کہ وہ اپنی آنکھوں سے اپنی کر توت کو دیکھ لے اور اچھی طرح سمجھ لے کہ اللہ کسی پر ظلم نہیں کررہا ،بلکہ بندہ نے جو کچھ کیا ہے اس کا نتیجہ اور ثمرہ اس کو مل رہاہے۔
بخاری شریف کی آخری حدیث کی تشریح
(۳)اس کے بعد آپ کے سامنے آیت کی مختصر شرح اور حدیث کا مطلب عرض کیا جارہاہے، آیت میں موازین جمع کا صیغہ لایا گیا ہے یہ میزان کی جمع ہے، میزان کے معنی ایک ترازو اور موازین کے معنیٰ ہیں بہت سے ترازو،شرّاح نے جمع کا صیغہ لانے کی مختلف تو جیہات کی ہیں ۔
(۱)ہر ہر شخص کے اعما ل کے لئے علحدہ علحدہ ترازو ہوگی
(۲)ہر شخص کے ہر ہر عمل کے لئے علحدہ علحدہ ترازو ہوگی جیسے لکڑی کے لئے علحدہ ترازو ہے سونے چاندی کے لئے علحدہ وغیرہ۔اسی طرح نماز، روزہ، حج صوم قربانی وغیرہ کے لئے علحدہ علحدہ ترازو ہوں گے ان میں فرائض کے لئے علحدہ اور نوافل کے لئے علحدہ تو کچھ بعید از عقل نہیں ۔
(۳)ترازو تو ایک ہی ہوگی لیکن اس کی تفخیم شان اور عظمت کے بیان کرنے کے لئے جمع لائے چنانچہ اس کی عظمت کے سلسلہ میں حدیث پاک میں آیا ہے کہ اس کے دو پلڑے ہوں گے ایک پلڑااتنا بڑا ہوگا کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمین اس میں