ایک مرتبہ تیر چلا رہے تھے اتفاق سے ان کی تیراندازی سے ایک پل کچھ نقصان ہوگیا،پل کی ایک میخ ٹوٹ گئی تھی،امام بخاریؒ کو بہت صدمہ ہوا،پل کے مالک کے پاس گئے اور کہا کہ یا تو آپ مجھ سے اسکا ضمان لے لیجئے یا مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسکو بنوادوں ،مالک نے کہا کہ آپ نے قصداً تو نقصان کیا نہیں میں آپ سے ضمان نہیں لوں گا،اور اگر نقصان ہوا بھی تو آپ کے لئے تومیرا سارا مال جان قربان ہے۔
(سیراعلام النبلاء ص۴۴۴ح۱۲)
مولانا اسماعیل شہیدؒ کا شوق جہاد اور اس کی تیاری
ہمارے تمام اکابر ہی تھے کہ حدیث میں جو پڑھتے اسکے مطابق عمل کرنے کی کوشش کر تے تھے مولانا اسماعیل شہیدؒ کا بھی یہی حال تھا کہ ایسی سنتیں جو مردہ ہورہی تھیں جن پر لوگوں نے عمل چھوڑدیا تھا ان کو زندہ فرماتے ،اس پر عمل کرتے چنانچہ اسی جذبہ سے جہاد کی تیاری بھی شروع کی کیونکہ یہ سنت بھی مردہ ہورہی تھی،جہاد کی تیاری اس طرح کرتے کہ تیز تپتی ہوئی دھوپ میں جامع مسجد کے صحن میں جلتے ہوئے گرم پتھر میں ننگے پاؤں چلنے کی مشق کرتے تھے، آگرہ سے دہلی تک جمنا میں تیر کر آتے اور دہلی سے آگرہ جاتے کہ اگر ایسا موقع آپڑے تو تیر بھی سکیں ،تیر تے تیرتے تھک جائے تو تھوڑی دیر آرام کرتے اور پھر تیرنے لگتے،جب کسی چیز کا جذبہ ہوتا ہے تو سب چیزیں آسان ہوجاتی ہیں ۔
جہاد کی تیاری کے واسطے گھوڑ ے پر سواری کرتے کبھی دو گھوڑے تیزی سے دوڑاتے اورچلتے چلتے کود کردوسرے گھوڑے میں جابیٹھتے کہ شاید کبھی اس کی نوبت آجائے کہ ایک گھوڑا زخمی ہوجائے اور دوسرے گھوڑے کی سواری کرنا پڑے،گھوڑے پر