مثالی زندگی اختیار کیجئے اور اپنے وقار کو برقرار رکھئے
(ایک ضروری) بات جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہماری زندگی عوام کی زندگی سے ممتاز ہو، دیکھنے والا کھلی آنکھوں دیکھے کہ یہ دنیا کے طالب نہیں ہیں ، ان کے یہاں مال ودولت معیار نہیں ہے، ہمارے کام زیادہ تر حسبۃ للہ ہوں ، جیسا کہ ہمارے اسلاف کا طریقہ رہا ہے، جب تک ہمارے طبقۂ علماء میں یہ اخلاقی امتیاز نہ ہوگا، ایثار کا مادّہ نہ ہوگا، ان کی شخصیت مؤثر اور قابل احترام نہیں ہوگی، دل ودماغ میں دین کا گہرااثر ووقار نہیں ہوگا ۔
علماء کا وقار اس سے نہیں بڑھے گا کہ یہ مدرسہ اتنا بڑا ہے، وہ مدرسہ اتنا بڑا ہے، وہاں اتنے طالب علم پڑھتے ہیں اور وہاں کے جلسے اتنے کامیاب ہوتے ہیں ، اس سے علماء کا وقار نہیں قائم ہوگا، علماء کا وقار قائم ہوتا ہے ذاتی نمونہ سے، عوام جب دیکھتے ہیں کہ یہ چیز ایسی ہے کہ اس پر جان دے دی جائے ،لیکن علماء اس کو ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھتے ہیں ، وہ اس کو خاطر میں نہیں لاتے، ہم نے سمجھا ہے کہ دولت سب سے بڑی چیز ہے،ان کے یہاں دولت کی کوئی حقیقت نہیں ہے، جیسا کہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے نواب صاحب ڈھاکہ کو جواب دیا تھا،نواب صاحب نے کہلوایا کہ آپ مجھ سے مل لیں ، حضرت نے کہلوایا کہ نواب صاحب سے کہنا کہ آپ کے پاس جو چیز’’دولت‘‘ہے وہ میرے پاس بقدر ضرورت موجود ہے، لیکن میرے پاس جو چیز ہے وہ آپ کے پاس بقدر ضرورت بھی نہیں ہے، اس لئے آپ کو آنا چاہئے، مجھے آنے کی ضرورت نہیں ۔
(خطبات علی میاں ص:۸۳ج۱)