رسالت کا عقیدہ درست نہ ہو کوئی عبادت اللہ کے یہاں مقبول نہیں ،تو حید نام ہے اللہ کوماننااور جیسا ماننا چاہئے ویسا ماننا۔
اگر کوئی شخص خدا کو مانتاہی نہیں انکار کرتا ہے کہ اس عالَم کا کوئی پیدا کرنے والانہیں خود بخود اس کا وجود ہے،تو وہ ملحد ہے۔
اور اگر اللہ پاک کو مانتا ہے لیکن اس کے ساتھ دوسروں کو بھی معبود سمجھتا ہے تو وہ مشرک ہے،اسی طرح اگر رسالت کا انکار کرتا ہے،یا انکار رتو نہیں کرتا لیکن رسول کے طریقہ کے خلاف عمل کرتا ہے اس کی بھی عبادت مقبول نہیں ،معلوم ہوا کہ عبادت کی مقبولیت عقیدۂ توحید اور رسالت کی درستگی پر موقوف ہے جس کا نام ایمان ہے،اس لئے کتاب الایمان کو عبادت پر مقدم کیا۔
اس کے بعد سمجھئے کہ ایمان ہو یا زندگی کا کوئی شعبہ ہو ان سب کے لئے ضروری ہے کہ وحی الہی کے تابع ہو،کوئی عقیدہ ہو یا زندگی کا کوئی عمل ہواگر وحی کے خلاف ہے تو نہ وہ عقیدہ صحیح ہے اور نہ وہ عمل معتبر ہے۔
معلوم ہوا کہ وحی مبدأ ہے تمام عقائد اور تمام اعمال کا اس لئے امام بخاریؒ نے سب سے پہلے اپنی کتاب کو ’’بدء الوحی‘‘ سے شروع کیا۔
اس باب میں ایک آیت بیان کی ہے اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمَا اَوْحَیْنَا اِلیٰ نُوحٍٍ۔ الآیۃجس سے یہ بتایا کہ وحی کوئی انوکھی چیز نہیں بلکہ جب سے اس عالم کی ابتداء ہوئی وحی کا سلسلہ برابر جاری ہے جس کااختتام نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا،اب نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کسی پر وحی آئے گی،اب جو رسول ہونے کا دعویٰ کرے یا اپنے اوپر وحی نازل ہونے کا دعویٰ کرے وہ باطل ہے اس کے ماننے والے سب گمراہ اور جہنمی ہیں ۔