امام بخاری کو طلب حدیث کے سلسلے میں طویل اسفار کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ فتوحات اسلامیہ کے وسیع ہوجانے کی وجہ سے حاملین حدیث دور دور تک پھیل گئے تھے، کتب حدیث اور تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ایک ایک حدیث کے لئے ایک ایک ماہ کی مسافت کا سفر کرتے تھے۔
بخاری شریف میں ہے:رحل جابر بن عبد اللّٰہ مسیرۃ شھر إلی عبد اللّٰہ بن أنیس فی حدیث واحد۔
حضرت ابراہیم بن ادھم کا مقولہ ہے کہ اصحاب حدیث کے اسفار کی برکت سے اللہ پاک اس امت سے بلاؤں کو اٹھالیتے ہیں ۔
طلب علم کے خاطر حضرت امام بخاریؒ کا فقروفاقہ اور مجاہدہ
امام بخاریؒ کو طلب علم کے دوران فاقہ بھی کرنا پڑا، درخت کے پتے اور گھاس بھی کھانی پڑی، فاقہ کے وقت کپڑے بھی فروخت کرنے پڑے مگر ان صبر آزما حالات میں بھی امام نے استقلال سے کام لیا اس میں ذرا بھی تذبذب پیدا نہ ہوا۔
ایک مرتبہ امام بخاری بیمار ہوئے تو ان کا قارورہ اطباء کو دکھایا گیا تو انہوں نے کہا کہ قارورہ ایسے شخص کا ہے جس نے سالن استعمال نہیں کیا، امام بخاری نے اس کی تصدیق کی اور فرمایاکہ میں نے چالیس برس سے سالن استعمال نہیں کیا، اطباء نے اس پر زور دیا لیکن امام نے اس کو منظور نہ کیا فرمایا کہ روٹی شکر کے ساتھ کھالوں گا۔
حقیقت تو یہی ہے کہ علم راحت طلبی اور عیش کے ساتھ حاصل نہیں ہوتا، فاقہ اور محنت و مشقت میں یہ دولت قلب پر نازل ہوتی ہے۔
امام بخاری کو اس مقام تک پہونچنے میں ان کی محنت و مشقت کو بھی بہت بڑا دخل ہے۔