ملک کو بچائیں ،موجودہ خطروں اور اندیشوں میں اس کی کیا گنجائش ہے کہ علماء اس طرح دست وگریباں ہوں ،یہ بات میں اپنے عقائد کے پورے تحفظ کے ساتھ کہتا ہوں الحمدللہ ایک شوشہ سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ، نہ عبادات کے مسائل میں ، نہ اپنے عقائد کے اصول میں ، کسی چیز میں کسی مفاہمت کے لئے تیار نہیں ، ایک تو اپنا عمل ہے، اور ایک یہ کہ اکھاڑا بنا دیا جائے، عوام کوآلۂ کار بنایاجائے اور سارے ملک کو میدان جنگ میں بدل دیا جائے،ایک کانفرنس ہورہی ہے یارسول اللہ کی اور ایک کانفرنس ہورہی ہے محمدرسول اللہ کی،یہ جینے کی باتیں نہیں ۔ (خطبات علی میاں ص۸۰،۸۲ج۱)
عوام کے ساتھ ربط رکھئے
(ایک ضروری )بات یہ ہے کہ عوام کے ساتھ آپ کا رابطہ ہونا چاہئے، میں نے محسوس کیاکہ علماء کا عوام سے جو ربط ہوناچاہئے اس میں کمی ہے…عوام سے آپ کا ربط بڑھنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ عوام آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں ۔(خطبات علی میاں ص۸۲ج۱)
بڑے پیمانہ پر دینی مدارس ومکاتب قائم کیجئے
ہمارا اور آپ کا بنیادی کام یہ ہے کہ علم دین کو پھیلانے کے لئے یا مسلمانوں کو مسلمان باقی رکھنے کے لئے آئندہ نسلو ں کے دین اور عقیدے اور تہذیب اور اسلامی تشخص کی حفاظت اور بقاء کے لئے بڑے پیمانہ پر دینی مکاتب اور مدارس قائم کریں ، اپنے بچوں کو کفر وایمان کافرق بتائیں ، شرک وبت پرستی کی شناعت ان کے دل ودماغ میں بٹھادیں ، اور اس بات کی ضمانت حاصل کریں کہ ہمارے بچے آئندہ اسلام پر قائم رہیں گے، اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو دین پر قائم ودائم رکھے۔ (خطبات علی میاں ص۱۹۶ج۱)