الوداعی نصیحت
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے ارشاد فرمایا :
میں مختصر وقت میں چند ضروری اور وداعی باتیں کرنا چاہتا ہوں ! یو ں تو وقت کا کوئی اعتبار نہیں لیکن چونکہ یہ الوداعی جلسہ ہے اس لئے آپ سے وہی باتیں کروں گا جو میرے اپنے عقیدے اور اپنے تجربے اور مطالعہ کے لحاظ سے مفیدہیں اور میں جن کو آپ کے لئے مفید سمجھتا ہوں ، (ان باتوں کو) سرسری نہ سمجھئے گا یہ ہزاروں صفحات کے مطالعہ کا نچوڑ ہے ۔ اگر چہ خود ستائی ہے اور اس میں کوئی فضیلت نہیں ہے محض اپنی بات میں اہمیت پیدا کرنے کے لئے کہتاہوں کہ بہت کم لوگوں کو علماء سلف اور علماء معاصرین اور درمیانی دور کے علماء خاص طورپر ہندوستان کے علماء کے تراجم پڑھنے کا موقع ملا ہوگا جتنا مجھے ملا، علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی خدمت میں رہنے کا موقع بھی نصیب فرمایا۔
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ درست ہو، کسی درجہ میں تقویٰ ، دیانت داری اور تعلق مع اللہ ہو یا اس کی فکر ہو ، یہ ایسی بنیادی بات ہے کہ جس کے بغیر نہ کسی کام میں برکت ہوتی ہے نہ حرکت اور اس کا حقیقی نفع اسی وقت ہوگا جب خدا اور رسول ﷺ کے ساتھ معاملہ درست ہو۔
میں یہ نہیں کہتا کہ آپ سب کے سب شب بیدار بن جائیں صوفی اور عارف باللہ ہوجائیں یہ ہر شخص کے لئے ضروری نہیں ۔ لیکن جو ضروری حصہ ہے وہ یہ ہے کہ ایک حد تک تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صحیح ہو اور اس کی فکر ہو۔ اور اپنی نمازوں کی فکر ہو دعا کا ذوق ہو اور انابت الی اللہ کسی نہ کسی درجہ میں ضرورہو۔ یہ سب سے اہم اوربنیادی چیز ہے اسے کبھی بھولنا نہیں چاہئے ، اور اس کے حصول کے بہت سے ذرائع ہیں ان میں