متن کو دوسری حدیث کی سند کے ساتھ خلط ملط کر دیا ، اور اب امام بخاریؒ کا امتحان ہوا، بہت دور دور سے لو گ دیکھنے آئے ، کا فی مجمع ہوگیا، ایک ایک کر کے ہر شخص نے ایک ایک حدیث پیش کی اور سب کے جواب میں امام بخاری ؒ نے فرمایا ’’لا ادری‘‘مجھے نہیں معلوم ، لوگ کہنے لگے بڑی شہرت سنی تھی ان کو تو کچھ بھی نہیں آتا، لیکن جو سمجھدار تھے وہ سمجھ رہے تھے کیونکہ اس سند کے ساتھ واقعی یہ حدیث نہیں ہے، جب دسوں آدمی اپنے سوال سے فارغ ہو چکے اس وقت امام بخاری ؒ نے فرمایا پہلا شخص جو آیا س نے یہ حدیث پیش کی اور اس کے ساتھ یہ سند پڑھی اس میں یہ غلطی کی ہے یہ حدیث اس سند کے ساتھ مروی ہے، اس کے بعد دوسرا شخص آیا اسنے یہ حدیث پڑھی اور اس کی سند میں یہ خلط ملط کیا اس سند کے ساتھ یہ حدیث اس طرح مروی ہے، اس طرح ایک ایک کر کے تر تیب وار ہر شخص کے متعلق فرما تے رہے کہ فلاں نے یہ حدیث اس سند کے ساتھ پڑھی اور یہ غلطی کی، صحیح سند یہ ہے ہر حدیث کی سند اور متن پڑھ کر بتلاتے گئے لوگ حیرت میں رہ گئے ۔
امام بخاریؒ کو یہ مقام والدہ کی خدمت اور ان کی دعاء کی وجہ سے نصیب ہوا
واقعی امام بخاری ؒ کا بہت اونچا مقام ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ نے یہ مقام کیوں نصیب فرمایا اور اس مقام تک آپ کیسے پہنچے، اس زمانہ میں بہت سے علماء ومحدثین تھے ان کو یہ مقام کیوں نہیں نصیب ہوا؟
یہ صرف والدہ کی خدمت اور والدہ کی دعاء کا اثر تھا، والدہ کی دعاء کی برکت اور اس کا ثمرہ تھا ،انہوں نے اپنی والدہ کی بہت خدمت کی ،والدہ کی خدمت اور ان کی