آخری باب میں بھی ایک آیت اور ایک حدیث لائے ہیں ،شروع باب میں آیت تھی’’ اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمَا اَوْحَیْنَا اِلیٰ نُوحٍٍ۔ الآیۃ‘‘ جس سے یہ ثابت کیا تھا کہ وحی کوئی انوکھی اور نرالی چیز نہیں اس کا سلسلہ ابتداء آفرینش سے چل رہاہے۔
اسی طرح اس آخری باب میں ’’ ونضع الموازین القسط ‘‘لاکر یہ ثابت کیا کہ اعمال کا وزن کوئی تعجب خیز بات نہیں ۔
یہ قاعدہ ہے کہ آدمی کسی کھوٹی چیز کو قبول نہیں کرتا،ہر چیز کے لئے ایک کسوٹی ہوتی ہے جس سے اس شیٔ کا کھرا اور کھوٹا ہونا معلوم ہوتاہے،کھری اور اچھی چیز کو قبول کرتا ہے کھوٹی چیز کو رد کردیتا ہے۔
اسی طرح خدا وندقدوس نے کھرے کھوٹے اعمال کے لئے ایک کسوٹی قائم کی ہے جس کو میزان عمل کہا جاتا ہے اس سے معلوم ہوگا کہ کون ساعمل کھرا ہے اور کون سا کھوٹا ہے، کھرا عمل مقبول ہوگا اور باعث نجات ہوگا،کھوٹا عمل مردود اور باعث ہلاکت ہوگا۔
او رجس طرح شروع باب میں آیت کے بعد حدیث اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ لائے تھے جس سے یہ بتایا تھا کہ عمل خواہ کتنا ہی عظیم اور حسین ہو بغیراخلاص نیت کے معتبر نہیں اس آخر کی باب میں آیت کے بعد حدیث لائے کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلٰی الرَّحْمٰنِ الخ جس سے یہ ثابت کیا کہ اگر اخلاص کے ساتھ کوئی معمولی عمل بھی کیا جائے جس میں کوئی زیادہ محنت اور مشقت نہیں وہ بھی اللہ کے یہاں مقبول ہے اس کا عامل محبوب اور ناجی ہوگا۔
اس طرح سے شروع باب کی آیت اور حدیث کا آخر باب کی آیت اور حدیث سے مناسبت اور باہمی ربط ثابت ہوا۔
یہ کمال ہے امام بخاریؒ کا جس طرح ہر باب میں ماقبل کے باب سے مناسبت