اور مسلمانوں کی تربیت کا کام کررہے تھے اور ہر ایک نے الگ محاذ سنبھال رکھا تھا
جن لوگوں نے اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ کا نام سکھایا اور لوگوں کی تربیت کی ان کے کام کی تحقیر نہ کی جائے یہ کام انہوں نے کیا جن کو عرف عام میں صوفیائے کرام کہتے ہیں ،آپ کو معلوم نہیں کہ صوفیائے کرام نے کیا خدمت انجام دی ؟انہوں نے اسلامی معاشرے کو زوال سے بچایا،اس کا میرے پاس ثبوت ہے۔انہوں نے ایسا بنیادی کام کیا اگر وہ نہ کرتے تو مادیت کا یہ سیلاب لوگوں کو بہا کر لے جاتا اور تنکے کی طرح امت اسلامیہ بہتی، انہی کی وجہ سے لوگ رکے ہوئے تھے ،اور ہوس رانی ،نفس پرستی کا بازار گرم نہیں ہونے پاتاتھا، اورجو کوئی اس کا شکار ہوجاتا تھا تو فوراً اس میں احساس پیدا ہوتا تھا کہ ہم غلط کام کررہے ہیں ان کے پاس آتا تھا ،روتا تھا ،استغفار کرتا تھا پھر یہ صوفیا ومشائخ کام کے آدمی بناتے تھے اور اپنی جگہ پر فٹ کرتے تھے ۔ (خطبات علی میاں ص:۱۴۳،۱۴۵ج۳)
خبر دار ایسی غلطی کاکبھی شکار نہ ہوئیے گا
حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ ارشادفرماتے ہیں :
عزیز نوجوانو!تم اپنی دانش گاہ سے انشاء اللہ داعی اور مصلح،انشاپردازاور مصنف اور قائد ورہنما بن کر نکلو گے ،میں چاہتاہوں کہ یہاں تم کو ایک نصیحت کرتا چلو ں جو طویل مطالعہ کا حاصل اور تجربات کا نچوڑ ہے ۔
خبردار! تمہاری تحریریں اور اسلام اس کے حقائق اور اس کے اصولوں کے پیش کرنے کا تمہارا انداز ہرگز قاری کو یہ تاثر نہ دینے پائے کہ مسلمان اس طول وطویل مدت میں مستقل جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتے رہے ،اور دین کو صحیح طورپر نہ سمجھ سکے ،جو کہ ہر زمانہ اور ماحول کا دین ہے اور اسی طرح قرآن کی بنیادی اصطلاحات اور تعبیروں کو سمجھنے سے بھی قاصر