دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے
بڑے بڑے علماء کیسے ہوتے تھے
پہلے زمانہ میں کہاں اس طرح کے بڑے بڑے مدرسے اور دارالعلوم تھے لوگوں نے ایک ایک استاد سے علم حاصل کیا اور کہیں سے کہیں پہنچے،حضرت مولانا عبد الحی صاحب فرنگی محلیؒ نے اپنے والد صاحب ہی سے علم حاصل کیا جن کی نظیر نہیں ملتی،دینے والی ذات تو اللہ تعالیٰ کی ہے، جس کو دیتا ہے وہی دیتا ہے ،استاد اور ادارہ کسی کو کیا دیتا ،استاد اور مدرسہ تو صرف وسیلہ اور سبب ہوتا ہے،اس لئے تعلیم شروع کرنے سے پہلے ہی اپنی نیت درست کرلو،اور نیت کی درستگی یہی ہے کہ اللہ کی خوشنودی ہی مقصود ہو،اور اللہ کی خوشنودی اسی وقت حاصل ہوگی جب اس کے فیصلہ پر راضی رہاجائے کہ اس نے ہمارے لئے جو مقدر کیا ہے اسی میں ہماری بھلائی ہے،اور یہ سوچ لینا چاہئے کہ اب تو جو کچھ ہونا ہے یہیں سے ہونا ہے،جو کچھ ملنا ہے اسی در سے ملنا ہے،استعداد بنے گی تو یہیں سے ،کامیابی حاصل ہوگی تو اسی در سے،اب تو کامیابی حاصل کرنے کی صورتیں اور اس کے اسباب اختیار کرو۔
اور سب سے پہلی بات یہ کہ اپنی نیت درست کرو،کسی عمل میں روح اور جان پیدا نہیں ہوسکتی جب تک کہ نیت میں اخلاص نہ ہو،اسی لئے امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں سب سے پہلے تصحیح نیت کے واسطے حدیث ’’انمالاعمال بالنیات ‘‘کو ذکر فرمایا ہے۔
بڑے اداروں میں جانے کی تمناکرنا
بڑے اداروں میں جانے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن جانے سے پہلے اپنی نیت