فرق جانتے تھے، تم سنت وبدعت کا فرق جانتے تھے، لیکن تم نے نہ کہیں ٹوکا نہ کہیں روکا، نہ کہیں تم نے اشارہ کیا نہ تم نے کہیں تبلیغ کی، اس کا جواب دو!تم نے کس لئے پڑھا تھا؟ کیوں سات برس لگائے تھے دارالعلوم دیوبند میں ، مظاہر علوم(سہارنپور) میں ، یا ندوۃ العلماء(لکھنو) میں ،یہاں پڑھ کر آپ نے کیا حاصل کیا؟خدا کے یہاں جواب دینا ہوگا کہ جوکچھ پڑھا تھا اس کا ہم نے کیا حق ادا کیا؟حدیثوں میں صاف صاف آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ ہم نے تمہیں رزق دیا تھا اس کا کیا حق ادا کیا؟ ہم نے تمہیں دین کی سمجھ دی تھی اس کا کیا حق ادا کیا؟زندگی دی اس کا کیا حق ادا کیا؟…ہمیں چاہئے کہ پورے دین کو اپنی زندگی میں داخل کریں ، اور پورے طور پر اس کی تعلیمات کے سانچے میں اپنی زندگی کو ڈھال دیں تب ہی ہم دینی تعلیم کے تقاضے کی تکمیل کرسکتے ہیں ۔ (ملت اسلامیہ کا مقام وپیغام ص۲۱۳)
اصلاح رسومات وبدعات میں مداہنت سے کام نہ لیجئے
(اے عزیز طلباء!)اب آپ سے رخصت ہونے سے پہلے میں ایک آخری چیز کہنا چاہتاہوں جو اگرچہ آخر میں کہی جارہی ہے مگر وہ اہمیت میں کسی سے کم نہیں آپ کے اور ہمارے اسلاف کاسب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پورے مسلمانوں کی دینی حس اور مذہبی غیرت کی حفاظت کی اور وقت کے کسی فتنہ کے سامنے سپر نہیں ڈالی،انہوں نے بدعات ورسوم اور شعائر جاہلیت کے معاملے میں بھی مداہنت وتساہل سے کام نہیں لیا، آپ کے اسلاف میں حضرت مولانامحمد اسمعیل شہید اور مولانارشید احمد صاحب گنگوہی جیسے جبلِ استقامت اور نقیبِ شریعت گذرے ہیں جنہوں نے سب کچھ گوارا کیا مگر خلاف شریعت فعل اور کسی بدعت کے ساتھ رعایت نہیں برتی۔
(پاجاسراغ زندگی ص۱۱۹)