سمیت غالب ہے، اسی واسطے رحمن تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں کہہ سکتے، اور رحیم کا اطلاق غیر اللہ پر بھی ہو سکتا ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آیا ہے حریص علیکم بالمؤمنین رؤف الرحیم ،لیکن رحمن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں کہہ سکتے۔
اسی واسطے اگر کسی کا نام عبدالرحمن ہو تو اس کو عبدالرحمن ( پورا نام لے کر)ہی پکارنا چاہئے ، صرف رحمن کہہ کر اسکو پکارنا بے ادبی ہے۔
رحمن ورحیم کا باہمی فرق
رحمن ورحیم دونوں ہی مبالغہ کے صیغے ہیں ،زیا دہ مبالغہ رحمن میں ہے یا رحیم میں ؟ ا س میں دونوں قول ہیں ، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ رحمن میں زیا دہ مبالغہ ہے اعمیت کے اعتبار سے اور رحیم میں زیا دہ مبالغہ ہے اتمیّت کے اعتبار سے یعنی رحمن کا تعلق دنیا وآخرت دونوں ہی سے ہے،اور مطلب یہ ہے کہ دنیا میں مسلم غیر مسلم سب پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے، اس لحاظ سے رحمن میں مبالغہ زیا دہ ہوا، اور رحیم کا تعلق آخرت سے ہے یعنی صرف مسلمانوں ہی کے حق میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمی کا ظہور ہو گا، اور معمولی معمولی بہانے سے لوگوں کی بخشش کر دی جا ئے گی تو رحمت کی اعمّیت آخرت میں ظاہر ہو گی گویا باعتبار کمیت کے رحمن میں مبالغہ زیا دہ ہے اور با عتبار کیفیت کے رحیم میں زیا دہ مبالغہ ہے کہ مسلمانوں کے حق میں آخرت میں رحمت کا غلبہ ہوگا، معمولی معمولی کام پر بخشش کی جا ئے گی۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت بخشش کے بہانے ڈھوندتی ہے
اللہ تعالیٰ اس قدر رحیم وکریم ہے کہ معمولی سے معمولی کام بھی اگر خلوص نیت سے کیا گیا ہو تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو معاف فرمادے