رحمت نام ہے رقۃ القلب(قلب کی نرمی )کا اور قلب جسم کا جزء ہے اور اللہ تعالیٰ اجسام سے مبرا ہے اس لئے اس کو مشتق ماننا صحیح نہیں ،بعض لوگوں نے کہا کہ مشتق تو ہے لیکن حقیقی اعتبار سے نہیں بلکہ مجازی اعتبار سے، اس صورت میں کو ئی اعتراض نہ ہوگا۔
علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے رحمن ورحیم مجازی معنی میں مستعمل ہو، جب اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ان کا استعمال حقیقی نہ ہوگا تو اور کس کے لئے ہو گا، جب اللہ تعالیٰ حقیقی رحمن ورحیم نہ ہوگا تو اور کون ہوگا۔
پھر خود ہی جواب دیتے ہو ئے فرماتے ہیں کہ اصل غلطی یہاں سے ہو ئی ہے کہ رحمت کی تعریف رقۃ القلب سے کی گئی یہ تعریف انسان کے اعتبار سے تو ٹھیک ہے اور انسان کی شان کے لا ئق بھی ہے، انسان کے حالات اور جسم کو سامنے رکھتے ہو ئے یہ تعریف کی گئی ہے، لیکن اسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے حق میں بھی رحمت کی تعریف کردی گئی ہے بس یہیں سے غلطی ہو گئی ۔
اللہ کی شان میں تو رحمت کی تعریف اسی کی شایاں شان ہو گی وہاں تو جسم اور قلب کا واسطہ ہی نہ ہوگا، اور رحمت ہی کی کیا تخصیص ہے اس کے علاوہ دیگر تمام صفات میں بھی یہی کہا جا ئیگا ، مثلاً اللہ تعالیٰ سمیع وبصیر ہے لیکن سننے اور دیکھنے کے لئے وہ آنکھ اور کان کا محتاج نہیں ،وہ سنتا بھی ہے دیکھتا بھی ہے لیکن کس طرح؟ ہم اس کو نہیں جا نتے ، ہم اس کی حقیقت سے ناواقف ہیں شاہ صاحب کا یہ جواب دل کو لگتا ہے۔
رحمن ورحیم کا استعمال
رحمن بمنزلہ علم کے ہے، اور رحیم کے اندر وصفی معنی غالب ہیں اور رحمن کے اندر