پہلے اپنی نیت درست کرے،جب تک نیت درست نہ ہوگی اس علم میں کامیابی حاصل نہ ہوگی اور نہ ہی اس کا مقصد حاصل ہوگا،آدمی جیسی نیت کرے گا ویساہی اس کا ثمرہ ظاہرہوگا،اگر خدا کی رضا وخوشنودی کی نیت ہوگی تو اللہ کی رضا حاصل ہوگی،اس کے علاوہ دوسری نیتیں نام نمود،شہرت کی یا اورکوئی نیت ہو وہ سب اغراض فاسدہ ہیں ۔
اصل نیت جو ہونا چاہئے وہ تو ایک ہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی،اس کے علاوہ جو بھی نیت ہوگی وہ فاسد ہوگی،جو راستہ صحیح اور حق ہوتا ہے وہ ایک ہی ہوتا ہے اور متعین ہوتا ہے،وَأنّ ھٰذا صِرَاطِي مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُواالسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم عَنْ سَبِیْلِہ۔سیدھا راستہ تو ایک ہی ہے اس کے علاوہ جتنے راستے ہیں وہ سب گمراہی کے ہیں سُبُلْ جمع کا لفظ ہے جسکا عدد متعین نہیں کیونکہ جمع میں اقل کا عدد تو متعین ہوتا ہے اور اکثر کی تعیین نہیں ہوتی،پتہ نہیں کتنے راستے ہوں گے جو سیدھی راہ سے ہٹانے والے ہوں گے،حق راستہ کے علاوہ جو بھی راستہ ہوگا وہ گمراہی کا راستہ ہوگا۔
اسلئے صحیح نیت تو صرف ایک ہوگی وہ یہ کہ اس پڑھنے پڑھانے سے اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی حاصل ہوجائے،اس کے علاوہ جو بھی نیت ہوگی وہ فاسد ہوگی اور اتباع سنت،احیاء سنت کی نیت سے یا علم حدیث کو شرعی حکم سمجھ کر حاصل کرنے یا ثواب کی نیت سے یا یہ کہ مجھے اس کے ذریعہ عمل کی توفیق ہو سب اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی میں شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی حاصل ہونے کی علامت
جب صحیح نیت متعین ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا تو یہ اسی وقت حاصل ہوگا جب اس کے فیصلوں پر راضی رہا جائے،جب اس کو راضی کرنا ہے تو اس کے فیصلوں پر قانع رہنا چاہئے،اس نے ہمارے حق میں جو فیصلہ کردیا ہے وہی ہمارے لئے بہتر ہے،اب ادھر ادھر نگاہ اٹھا کر نہ دیکھے،ادھر ادھر نہ بھاگے،اللہ نے جہاں بھیج دیا ہے یقین رکھے کہ