جب محمد بن یحیٰ ذہلی نے اعلان کیا کہ من زعم لفظی بالقرآن مخلوق فلا یحضر مجلسنا تو امام مسلم نے اپنی چادر اٹھائی اور ذہلی کی مجلس سے چلے آئے اور ذہلی سے جو کچھ لکھا تھا سب ان کے پاس پہونچا دیا، اس کے بعد سے امام مسلم نے کوئی حدیث اپنی کتاب میں ان سے تخریج نہیں کی۔
حکومت وقت بھی اس غالی فرقہ کی حامی تھی، حاکم وقت امام کے ساتھ سختی کا معاملہ کرنے لگااور ان کی عزت کے پیچھے پڑ گیا۔
تنبیہ:مذکورہ حالات کی بناپر بعض حضرات غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ امام بخاری اور امام احمد کا خلق قرآن کے بارے میں اختلا ف ہے یہ غلط ہے، دونوں کا یہ عقیدہ ہے ’’القرآن کلام اللّٰہ غیر مخلوق‘‘ اس کے بعد امام بخاری فرماتے ہیں ، اس میں امام احمد کا اختلاف یاسلف صالحین میں سے کسی کا اختلاف منقول نہیں ، امام بخاری فرماتے ہیں کہ اللہ کا کلام بے شک قدیم ہے غیر مخلوق ہے لیکن پڑھنے والا حادث ہے، اس لئے اس کی آواز بھی حادث۔ لفظی بالقرآن کا امام بخاری کے نزدیک یہی مطلب ہے کہ انسان جو تلفظ کرتا ہے قرآن کے ساتھ یعنی قرآن کی تلاوت کرتا ہے اور اس میں جو اس کی آواز ہوتی ہے ، وہ حادث ہے ، امام احمد اس کے بالکل مخالف نہیں اور نہ کسی اہل حق نے اس کی مخالفت کی ہے ،امام احمدؒ نے تو متعدد جگہ بتصریح بیان کیا ہے کہ قاری کی قرأت کے وقت جو آواز سنائی دیتی ہے وہ قاری ہی کی آوازہوتی ہے اس کی تائید ’’زیِّنوالقُرآن بأصواتکم‘‘ سے بھی ہوتی ہے،اس میں اصوات کی اضافت مخاطبین کی طرف ہے۔
امام احمدؒ نے تو اتنا کہا تھاکہ’’ من قال لفظی بالقرآن مخلوق فھو جہمیٌّ ‘‘لوگوں نے یہ سمجھا کہ لفظ اور صوت دونوں ایک ہیں اس لئے کہہ دیا کہ امام احمد