ابواحمد بن عدی بیا ن کرتے ہیں کہ مجھ سے مشائخ کی ایک جماعت نے بیان کیا امام بخاریؒ کی مقبولیت کی وجہ سے بعض مشائخ وقت کو حسد ہوگیا تھا(نعوذباللہ من ذلک)انھوں نے لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ امام بخاریؒ کہتے ہیں کہ :’’لفظی بالقرآن مخلوق‘‘ ایک دن ایک شخص نے اٹھ کر سوال کیا ۔۔۔۔۔امام بخاریؒ سمجھ گئے کہ اس کا مقصد فاسد ہے اس لئے کچھ جواب نہیں دیا،وہ باربار سوال کرتاتھااور امام سکوت فرماتے رہے ،جب بہت اصرار کیا تو فرمایا’’القرآن کلام اللہ غیرمخلوق، و أفعال العباد مخلوقۃ‘‘۔
امام کا یہ فرمانا بالکل صحیح ہے ،اہل سنت والجماعت کا یہی مسلک ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے: ’’وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْلَمُون‘‘ظاہر ہے کہ انسان مخلوق ہے تو اس کے سارے افعال بھی مخلوق ہوں گے اور حادث ہوں گے قرآن تو بے شک غیر مخلوق ہے لیکن آدمی کا اس کی تلاوت کرنا یہ مخلوق ہے کیوں کہ یہ انسان کا فعل ہے جو مخلوق ہے اور مخلوق حادث ہے۔
اسی طرح اس کی کتابت، اس کی بنائی ہوئی روشنائی اور کاغذ یہ سب حادث ہیں مسئلہ بالکل صاف تھا مگر جس کو بدنام کرنا ہو اس کو کون روک سکتا ہے۔
چنانچہ امام ذہلی نے بھی اعلان کردیا کہ: القرآن کلام اللّٰہ غیر مخلوق ومن زعم لفظی بالقرآن مخلوق فھو مبتدع۔
اس اعلان کے بعد امام بخاری کی مجلس میں لوگوں نے جانا چھوڑ دیا مگر امام مسلم چونکہ حقیقت حال سے واقف تھے ان کا سینہ کینہ اور حسد سے پاک تھا، اس لئے انہوں نے امام بخاری سے اپنا تعلق ختم نہیں کیا۔ احمد بن مسلمہ بھی امام مسلم کے ساتھ تھے۔