کہا کہ قرآن پڑھتے وقت جو آواز انسان کی ہوتی ہے وہ بھی قدیم ہے، بعضوں نے کہا کہ جس کاغذ پر قرآن لکھاگیا وہ بھی قدیم ہے ،جس روشنائی سے لکھاگیا وہ بھی قدیم ہے۔
مقدمہ فتح الباری ۴۹۱/۷میں ہے کہ حاکم ابوعبداللہ نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ امام بخاری نیشاپور میں ۲۵۰ھ میں تشریف لائے،ان کی تشریف آوری سے پہلے محمد بن یحیٰ ذہلی نے اپنی مجلس میں کہاجو محمدبن اسماعیل کااستقبال کرنا چاہتاہے وہ میرے ساتھ کل چلے میں ان کے استقبال کے لئے جاؤں گا،چنانچہ بہت بڑامجمع ہوگیا۔
امام مسلمؒ فرماتے ہیں کہ نیشاپور والوں نے جیسا اعزاز امام بخاری کا کیااس سے پہلے کسی عالم یا حاکم کا نہیں کیا،دودوتین تین منزل سے لوگ استقبال کے لئے حاضر ہوئے۔
محمدبن یحییٰ ذہلی نے لوگوں سے کہا کہ اس رجل صالح کی خدمت میں جاکر احادیث سنو!لیکن مسئلہ کلام میں گفتگو نہ کرنا،اگر ہمارے خلاف کوئی بات ان کی زبان سے نکلی تو ناصبی ،رافضی،مرجی،جہمی خوش ہوں گے لوگ امام کی خدمت میں جانے لگے،روزانہ ایک بہت بڑامجمع ہوتاتھا،لیکن ہر زمانہ میں حاسد رہے ہیں ،جن سے دین کوبہت نقصان پہونچتاہے۔
امام بخاریؒ کی اس مقبولیت کو وہ برداشت نہ کرسکے اور یہ مسئلہ چھیڑدیا کہ’’لفظی بالقرآن ‘‘ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟یعنی وہ مخلوق اور حادث ہے یاغیرمخلوق اور قدیم ہے؟امام بخاریؒ نے فرمایا:’’أفعالنا مخلوقۃ،وألفاظنامن أفعالنا‘‘اتناسننا تھا کہ ایک ہنگامہ برپاہوگیا،کسی نے کہا کہ ’’لفظی بالقرآن مخلوق‘‘ کہا،کسی نے کہا :یہ نہیں کہا،اس حالت کو دیکھ کرمالک مکان نے ان سب کو باہر کردیا۔