ہونے کی طاقت بھی بڑھ گئی اور یہی وجہ ہے کہ جب انبیاء کرام کی روحانیت غالب آگئی تو ان کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا اور آنحضرتﷺ کی قوت روحانی، جب ان سب سے زیادہ تھی تو آپ کو قاب قوسین یا اس سے بھی قریب تر مقام تک اٹھایا گیا۔}
علامہ طیبیؒ اور حضرت شاہ صاحبؒ کے علاوہ بھی متعدد علماء کرام نے اس مسئلہ پر مبسوط بحث کی ہے۔ مگر ہمارا مقصد اپنے دعویٰ کو مبرہن کرنا ہے۔ تمام دلائل کا استیعاب ہمارا مقصود نہیں ہے۔
۲… اس مسئلہ میں سلف کا اختلاف ہے۔ بعض یہ لکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی جو ملاقات دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے ہوئی اور نیز آپ نے ان کو جو نماز پڑھائی تو یہ ملاقات وغیرہ ان کے ابدان اور اجسام مبارکہ کے ساتھ ہوئی تھی اور بعض کہتے ہیں کہ ان کی ارواح طیبہ نے ان کی صورتیں اور شکلیں اختیار کر لی تھیں اور ارواح پر اجسام کی جملہ کیفیات اور حالات طاری ہوگئے تھے۔
چنانچہ علامہ آلوسی الحنفیؒ (المتوفی۱۲۷۰ھ) لکھتے ہیں کہ: ’’وھل صلی بارواحہم اوبہا الاجساد فیہ خلاف (روح المعانی ج۱۵ ص۱۲)‘‘ {کیا آپ نے انبیاء کی ارواح کو نماز پڑھائی تھی یا ان کے اجساد کو؟ اس میں اختلاف ہے۔}
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی۸۵۲ھ)، علامہ بدرالدین عینیؒ (المتوفی۸۵۵ھ) اور خطیب قسطلانیؒ (المتوفی۹۴۳ھ) اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’واللفظ للاول بان ارواحہم تشکلت بصور اجسادہم او حضرت اجسادہم ملاقاۃ النبیﷺ تلک اللیلۃ تشربفًا وتکریماً ویؤیدہ حدیث عبدالرحمن بن ھاشم عن انسؓ ففیہ وابعث لہ آدم فمن دونہ من الانبیاء فامہم (فتح الباری ج۷ ص۱۶۲، عمدۃ القاری ج۸ ص۸۶، ارشاد الساری ج۶ ص۱۶۷)‘‘ {ان کی ارواح ان کے جسموں کی صورت میں متشکل ہوگئی تھیں۔ یا ان کے اجساد کو اس رات آنحضرتﷺ کے شرف ملاقات اور تکریم کے لئے کھڑا کر دیا گیا تھا اور اس قول کی تائید حضرت عبدالرحمن بن ہاشم کی روایت سے ہوتی ہے جو حضرت انسؓ سے (مرفوعاً) مروی ہے۔ جس میں یہ بھی مذکور ہے کہ آنحضرتﷺ کے لئے حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ باقی تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو (اجساد کے ساتھ) کھڑا کیاگیا تھا۔ جن کو آپ نے امامت کروائی۔}