الجسد احکام الروح وتمثل الروح والمعانی الروحیۃ اجساداً ولذالک بان لکل واقعۃ من تلک الوقائع تعبیراً (حجۃ اﷲ البالغہ ج۲ ص۵۶۰، باب نبیﷺ کی عادات وخصائل)‘‘ {جناب نبی کریمﷺ کو مسجد اقصیٰ تک پھر سدرۃ المنتہیٰ تک اور جہاں تک خدا نے چاہا سیر کرائی۔ یہ سب کچھ جسم کے ساتھ بیداری میں تھا۔ لیکن یہ ایک ایسے مقام میں تھا جو مثال اور شہادت کے درمیان برزخ ہے اور ہر دو عالم مذکورہ کے احکام کا جامع ہوتا ہے۔ پس جسم پر روح کے آثار ظاہر ہوئے اور روح اور معانی نے جسمیت قبول کر کے تمثل اختیار کیا۔ اسی لئے ان واقعات میں سے ہر واقعہ کی ایک حقیقت ہے۔}
حضرت شاہ صاحب نے آنحضرتﷺ کی حالت بیداری میں معراج جسمانی کا صاف طور پر اقرار واثبات کر کے آگے اپنے رنگ میں تین اور چیزیں حل فرمائی ہیں۔
۱… کہ بھلائی اور برائی کا منبع روح ہے۔ جسم خاکی اس کے تابع ہے۔ جس کی روحانیت اعلیٰ درجہ کی ہو۔ اس کے جسم پر روح کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اور ملا اعلیٰ کے ساتھ اس کو خاص نسبت ہوتی ہے اور آنحضرتﷺ سے بڑھ کر کسی کی روحانیت اعلیٰ نہیں ہوسکتی اور ارواح کا عالم بالاکی طرف جانا عقل اور نقل سے ثابت ہے۔ گویا آپ کا خاکی بدن مبارک روح کے مقابلہ میں مغلوب تھا اور اس جسم پر بھی روح کے آثار طاری تھے۔ لہٰذا سراپا روحانیت کے مجسمہ کا جسم مبارک کے ساتھ آسمانوں پر جانا کیوں صحیح نہیں ہے؟ حضرت شاہ صاحبؒ کی عبارت میں ’’فظہر علیٰ الجسد احکام الروح‘‘ کا یہی مطلب ہے۔ چنانچہ علامہ الطیبی الحنفیؒ المتوفی۷۴۳ھ بھی ارواح کے کمال پر بحث کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں کہ: ’’والرابع التی حصل لہا کمال القوتین وھذہ غایۃ الارواح البشریۃ وھی الانبیاء والصدیقین فلما ازداد قوۃ ارواحہم ازداد ارتفاع ابدانہم عن الارض ولہٰذا کان الانبیاء صلوات اﷲ علیہم قویت لہم ہذہ الارواح عرج بہم الیٰ السماء واکملہم قوۃ نبینا صلوات اﷲ وسلامہ علیہ فعرج بہ الیٰ قاب قوسین وادنیٰ (طیبی شرح مکشوۃ ج۴ ص۳۸۶ قلمی)‘‘{چوتھی قسم ان ارواح کی ہے۔ جن کو قوت علمی اور عملی دونوں میں کمال حاصل ہو اور یہ بشری ارواح کا انتہائی کمال ہے اور یہ انبیاء کرام اور صدیقین کی ارواح ہیں۔ کیونکہ جب ان کی قوت روحانی غالب آگئی تو ان کے ابدان واجسام میں زمین سے مرتفع