بھائیو! میں پورے ایک دن کے بعد تمہیں ملوں گا۔ اس جگہ ایک دن سے مراد دو برس تھے۔ (پھر آگے لکھتے ہیں) مسیح نے تو صرف مہد میں ہی باتیں کیں۔ مگر اس لڑکے نے پیٹ میں ہی دو مرتبہ باتیں کیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۴۱، خزائن ج۱۵ ص۲۱۷)
حضرات! آپ مرزاقادیانی کی تحریرات پڑھ چکے کہ خارق عادت امور کا دنیا میں وقوع ہوتا رہا ہے اور مرزاقادیانی کو بھی اس کا واضح تر الفاظ میں اقرار ہے کہ اﷲتعالیٰ کی قدرت پر ایمان لانے کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں اور وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔
لطیفہ… مرزاقادیانی کی ہر ادا نئی اور نرالی تھی۔ نبوت نئی تھی، خدا نیا تھا، الہام نیا اور حساب بھی نیا تھا۔ نبوت اس لئے کہ ان کو ظلی، بروزی اور غیر تشریعی نبی ہونے کے باوجود تمام نبیوں سے اونچا تخت ملا۔ ’’آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۸۹، خزائن ج۲۲ ص۹۲)
اور نیز لکھا: ’’اس وقت ہمارے قلم رسول اﷲﷺ کی تلواروں کے برابر ہیں۔‘‘ (ملفوظات احمدیہ ج۱ ص۳۴۶) اور خدا اس لئے نیا کہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’نئی زندگی ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی۔ جب تک ایک نیا یقین پیدا نہ ہو اور کبھی نیا یقین پیدا نہیں ہوسکتا۔ جب تک موسیٰ اور مسیح اور ابرہیم اور یعقوب اور محمدﷺ کی طرح نئے معجزات نہ دکھائے جائیں۔ نئی زندگی انہی کو ملتی ہے۔ جن کا خدا نیا ہو۔ یقین نیا ہو، نشان نئے ہوں۔‘‘
(تریاق القلوب کا ضمیمہ نمبر۳ ص س، خزائن ج۱۵ ص۴۹۷)
اور الہام اس لئے نیا کہ الہام تو مرزاقادیانی کو ہورہا تھا۔ لیکن مخاطب اس (یعنی جنین) کے بھائی تھے۔ مرزاقادیانی پر اگر یہ الہام ٹیچی ٹیچی (جو مرزاقادیانی پر وحی لایا کرتا تھا۔ حقیقت الوحی ص۳۳۲، خزائن ج۲۲ ص۳۴۶) لایا تھا تو یہ نام ہی بڑا عجیب ہے اور اگر خیراتی (مرزاقادیانی کے ایک فرشتے کا نام تھا۔ تریاق القلوب ص۹۴، خزائن ج۱۵ ص۳۵۱) لایا تھا تب بھی وہ سمجھا ہوگا کہ خیراتی اور بناسپتی نبی کی طرف چنداں التفات کی ضرورت نہیں۔ چلو الہام مرزاقادیانی کو ہوتا رہے اور دیدار اور تخاطب ان کے صاحبزادوں سے ہوتا رہے ؎
شیخ بھی خوش رہے شیطان بھی ناراض نہ ہو
اور حساب اس طرح نیا کہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’اس جگہ ایک دن سے مراد دوبرس تھے۔‘‘ واہ سبحان اﷲ! کیا ہی حساب ہے کہ ایک دن سے دو برس مراد ہیں۔ مرزاقادیانی نے