’’ہمیں اس کے غلام نبی ہند (مرزاقادیانی) کو بھی نبی الٰہی کمالات کے باعث ماننا پڑے گا۔ اگر غلام کو نبی اس لئے تسلیم نہیں کرتے کہ اس میں بعض باتیں پائی جاتی ہیں۔ جنہیں ہمارا محاکمہ نقص ٹھہراتا ہے تو وہی باتیں احمد مختار میں بھی موجود ہیں۔ تو ہم غلام احمد قادیانی کو چھوڑ دینے کے ساتھ ہی اس کے سردار کو بھی جواب دیںگے۔‘‘ (اخبار الحکم قادیان)
خواجہ صاحب ۱۹۲۰ء کے ستمبر کے مہینے میں قادیانیت کی اشاعت اور محمد علی لاہوری کی قادیانی تفسیر کی طباعت کے اخراجات کے لئے چندہ کی غرض سے برما کے دارالخلافہ رنگون آئے۔ مشہور رئیس اعظم سرجمال مرحوم کے گھر میں ٹھہرے۔ ابتداء میں منافقانہ طور پر مرزاغلام احمد قادیانی کا سنی، حنفی ہونا اور دعویٰ نبوت نہ کرنے کے متعلق تقریریں کیں۔ اس کے مقابلہ کے لئے مولانا عبدالشکور صاحب لکھنوی ’’مدیر النجم‘‘ بھی تشریف لائے۔ مولانا کے سوال کرنے پر مرزاغلام احمد قادیانی ابتدائی تحریرات یعنی (ضمیمہ حقیقت الوحی ص۶۴، خزائن ج۲۲ ص۶۸۹) کی ختم نبوت کو ماننے کی عبارتیں دکھا کر دھوکہ دے رہے تھے کہ یکایک مولانا نے خواجہ کمال الدین کی لکھی ہوئی کتاب کا حوالہ دیا۔ جس میں خواجہ صاحب نے مرزاقادیانی کو خدا کا نبی، رسول، خدا کا برگزیدہ مرسل، نذیر وبشیر وپیغمبر لکھا تھا۔ اس کے بعد مولانا عبدالشکور کی موجودگی تک مقابلہ میں نہیں آئے۔ نہایت رسوا ہوکر برما سے واپس گئے۔ ان تمام واقعات کو دیکھنا ہو تو ’’صیحہ رنگون‘‘ نامی کتاب دیکھئے۔ (یہ بھی احتساب قادیانیت میں چھپ چکی ہیں۔ مرتب) اس کے بعد خواجہ صاحب لندن گئے۔ ’’ریسرچ آف اسلام‘‘ نامی رسالہ میں اپنی تبلیغی سرگرمی دکھاتے رہے۔ یکایک خواجہ صاحب کے جھوٹ کا پول پیسہ اخبار میں چھپا جس کو قادیانی اخبار الفضل کے الفاظ میں سنئے۔
’’خواجہ کمال الدین صاحب کے منجملہ اور کارناموں کے ایک یہ بھی ہے کہ جہاں کہیں کوئی پرانا نومسلم انگریز جو سالہا سال سے مسلمان چلا آتا ہے۔ اتفاقاً کہیں ووکنگ مسجد چلا گیا تو خواجہ صاحب نے جھٹ اس ماہ کی رپورٹ میں اپنے نومسلموں کے درمیان لکھ کر فروغ دے دیا۔ شکر ہے کہ اخبار پیغام صلح صرف اردو میں ہے۔ اس ملک (انگلستان) کے لوگوں کے پاس نہ وہ آتا ہے نہ وہ پڑھ سکتے ہیں۔ ورنہ اسلامی مشنریوں کی بدنامی اس ملک میں ہوتی۔ وہ ظاہر ہے لیکن جب سے یہ راز پیسہ اخبار میں شائع ہوا ہے۔ خواجہ صاحب نے کمال ہوشیاری سے ایک نیا طرز اختیار کیا کہ عموماً اپنی رپورٹ میں نو مسلم کا نام نہیں لکھتے۔ انگریزی رسالہ میں تو بالکل ہی نہیں