فرمایا کہ: ’’قال خذھا ولا تخف سنعیدھا سیرتہا الاولیٰ (طہ)‘‘ {پکڑلے اس کو اور مت ڈر۔ ہم ابھی پھیر دیںگے اس کو پہلی حالت پر۔}
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کام صرف یہی تھا کہ اس اژدھا کو اپنے ہاتھ سے پکڑ لیتے۔ اس کو پہلی حالت پر لاٹھی بنادینا۔ صرف خداتعالیٰ کا کام تھا اور اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کچھ بھی دخل نہ تھا۔
ایک مرتبہ مشرکین مکہ نے آنحضرتﷺ سے کسی مخصوص معجزہ کا مطالبہ کیا۔ اﷲتعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ سے ان کو جواب ارشاد فرمایا کہ آپ ان کو یہ کہہ دیں۔ ’’انما الاٰیات عند اﷲ (انعام)‘‘ {کہ نشانیاں (اور معجزات) تو اﷲتعالیٰ ہی کے پاس ہیں۔}
اس سے بھی معلوم ہوا کہ معجزہ پیغمبر کے بس میں نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ اﷲتعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔ جب اور جس وقت اور جس طرح وہ چاہے نبی کے ہاتھ پر صادر فرمادے اور اسی طرح کرامت ولی کا فعل نہیں ہوتا۔ بلکہ جب اﷲتعالیٰ چاہے تو اس کو ولی کے ہاتھ پر صادر کر دیتا ہے۔
راقم الحروف کی اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب بنام ’’راہ ہدایت‘‘ طبع ہوچکی ہے۔ جس میں قرآن کریم، صحیح احادیث، کتب عقائد اور معتبر علماء کرامؒ کے حوالہ جات سے یہ ثابت کیاگیا ہے کہ معجزہ اور کرامت اﷲتعالیٰ کا خاص فعل ہوتا ہے۔ جو نبی اور ولی کے ہاتھ پر صادر کیا جاتا ہے۔ ان کا اس میں کچھ دخل نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہم صرف چند عبارتیں اپنے دعویٰ کو مبرہن کرنے کے لئے یہاں لکھتے ہیں۔
۱… حضرت ملا علیؒ قاری الحنفی المتوفی ۱۰۱۴ھ ارقام فرماتے ہیں کہ: ’’المعجزۃ من العجز الذی ھو ضدالقدرۃ وفی التحقیق المعجز فاعل العجز فی غیرہ وھو اﷲ سبحانہ (مرقات ہامش مشکوٰۃ ج۲ ص۵۲۰)‘‘ {معجزہ عجز سے (مشتق) ہے۔ جو قدرت کی ضد ہے اور تحقیقی بات صرف یہ ہے کہ معجزہ وہ ہے جو غیر کے اندر عجز کا فعل پیدا کرے اور وہ صرف اﷲتعالیٰ ہی کی ذات مقدس ہے۔}
اس عبارت سے بھی بصراحت یہ بات ثابت ہوگئی کہ درحقیقت معجز (یعنی عجز کا فعل پیدا کرنے والا) صرف اﷲتعالیٰ ہی ہے اور معجزہ صرف اﷲتعالیٰ ہی کا فعل ہے۔
۲… اور علامہ قاضی عیاض بن موسیٰ بن عیاض المالکیؒ المتوفی ۵۴۴ھ لکھتے ہیں کہ: ’’اعلم ان معنی تسمیۃ ماجاء ت بہ الانبیاء معجزۃ ھو ان الخلق عجزوا عنہ فبعجزہم عنہ ہو فعل اﷲ تعالیٰ دل علیٰ صدق نبیہ‘‘ {جاننا چاہئے کہ جو