۲… ’’یجدونہ مکتوبا عندہم فی التوراۃ والانجیل (اعراف:۱۵۷)‘‘ {وہ اہل کتاب اپنے یہاں توراۃ وانجیل میں آپؐ کو (نبی) لکھا ہوا پاتے ہیں۔}
۳… ’’یعرفونہ کما یعرفون ابناء ہم (البقرہ:۱۴۶)‘‘ {وہ (اہل کتاب) اس (نبی عربی) کو ایسا پہچانتے ہیں۔ جیسے اپنی اولاد کو یعنی آپؐ کے متعلق انبیائے سابقین کی بشارتیں توراۃ وانجیل میں موجود ہیں۔}
بشارات توراۃ
۱… میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ جیسا ایک نبی پیدا کروںگا اور اپنا کلام ڈالوں گا۔ (توراۃ)
نوٹ: ان کے بھائیوں سے مراد بنو اسماعیل یعنی اہل عرب ہیں۔ تجھ جیسا ایک نبی، موسی علیہ السلام کے بعد، موسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر بنی اسرائیل میں نہیں گذرا اس لئے یہ پیشین گوئی درحقیقت حضورﷺ ہی کے متعلق ہے۔
۲… خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران کے پہاڑ سے جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت (قرآن) ان کے لئے تھی۔ (توراۃ سفر استثناء ۳۲)
نوٹ: سینا سے آیا، مراد موسیٰ علیہ السلام کی آمد، سعیر سے طلوع ہونے کے مصداق عیسیٰ علیہ السلام کی آمد، فاران کے پہاڑ سے جلوہ گر ہونے کا مطلب حضورﷺ کے آمد کی بشارت ہے۔ کیونکہ فاران پہاڑ مکہ ہی میں موجود ہے۔ دس ہزار قدسیوں سے مراد فتح مکہ کے وقت دس ہزار جانباز صحابہؓ کا موجود ہونا مراد ہے۔
۳… (انجیل برنباس۶۶ ص۴۲) ’’اباب یسوع ولست احسب نفسی نظیر الذی تقولون عنہ لانی لست اہلا ان احل رباطات جرموق اوسیور حذاء رسول اﷲ الذی تسمونۃ مسیا الذی خلق قبلی وسیاتی بعدی وسیاتی۰ بکلام الحق ولا یکون لدینہ نبایتہ‘‘
ترجمہ: میں اپنے نفس کو اس کے مثل نہیں گمان کرتا۔ جس کا تم ذکر کرتے ہو۔ اس لئے کہ میں اس کا بھی اہل نہیں کہ اس کی جوتی کے تسمے کھولوں۔ یعنی وہ ذات جس کو تم ’’مسیا‘‘ کہتے ہو وہ مجھ سے پہلے پیدا کیاگیا اور میرے بعد آئے گا اور کلام حق یعنی اﷲ کا کلام لے کر آئے گا اور اس