بارہ سال کی عمر میں چچا کے ہمراہ تجارتی قافلہ کے ساتھ ملک شام کی سرحد ’’بصرہ‘‘ میں پہنچے۔ بحیرا راہب کے منع کرنے پر آپؐ اپنے چچا کے ہمراہ مکہ واپس آگئے۔ اور تجارتی کاموں اور خلق اﷲ کی فیض رسانی میں مشغول ہوگئے۔ جب آپ کی عمر ۲۰سال کی ہوئی تو آپ حرب الفجار کی مشہور ومعروف جنگ میں قریش کی طرف سے نہایت بہادری سے شرکت کی۔ اس کے بعد آپؐ حلف الفضول میں اپنے ماموں کے ساتھ شریک ہوئے۔ جب آپؐ کی عمر ۲۵سال کی ہوئی تو مکہ کے مشہور ومعروف خاندانی تاجر چالیس سالہ بیوہ حضرت خدیجتہؓ کے غلام میسرہ کے ہمراہ تجارت کی غرض سے ملک شام گئے۔ واپسی پر آپ کی ایمانداری اور دیانتداری کو دیکھ کر حضرت خدیجہؓ نے نکاح کی درخواست کی۔ حضورﷺ کے چچا حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہؓ کے چچا عمروبن اسد کے زیر اہتمام آپ کی شادی ہوئی جن سے دو لڑکے یعنی حضرت قاسمؓ اور عبداﷲؓ اور چار لڑکیاں یعنی حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ، حضرت فاطمہؓ پیدا ہوئیں۔ جب آپؐ کی عمر پینتیس سال ہوئی تو سیلاب کی وجہ سے کعبتہ اﷲ کی دیواریں گر پڑیں۔ ہر قبیلہ نے اپنی اپنی پاک کمائی سے کعبۃ اﷲ کی تعمیر میں حصہ لیا۔ جب حجر اسود کے رکھنے کی باری آئی تو ہر قبیلہ اور ہر شخص کی تمنا یہ تھی کہ وہی اس مقدس پتھر کو اٹھاکر اس کی جگہ پر رکھے۔ اس پر جھگڑا بڑھا۔ جنگ وجدال کی ٹھن گئی۔ آخر حضرت خالد بن ولید کے چچا ابوامیہ فخروی نامی بوڑھے قریشی کے مشورہ پر رک گئے۔ بوڑھے نے کہا کیا تم لوگ کل کعبۃ میں سب سے پہلے داخل ہونے والے شخص کا فیصلہ مانوگے؟۔ قوم نے جواب دیا۔ ہاں!ہمیں منظور ہے۔ حضورﷺ سب سے پہلے کعبۃ ﷲ میں داخل ہوئے۔ آپؐ کو دیکھ کر ساری قوم چلاّ اٹھی ’’محمدالصادق الامین‘‘ اے سچے امانت دار (صلی اﷲ علیہ وسلم) ہم آپ کے فیصلے کو ماننے کے لئے تیار ہیں۔ آپؐ قوم کے ہمراہ حجر اسود کے پاس تشریف لائے۔ چادر بچھائی۔ دست مبارک سے حجر اسود اٹھاکر چادر میں رکھ کر فرمایا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک فرد چادر کا کونہ پکڑ کر اصلی مقام پر پہنچائے۔ اس کے بعد آپؐ نے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھ دیا۔ جس کی وجہ سے بڑا فتنہ دب گیا۔
نبوت
جب آپؐ کی عمر چالیس سال کی ہوئی تو خدا وند قدوس نے خاتم النبیینؐ کے عہدے سے آپ کو سرفراز فرمایا اور انسانیت کے آخری دستور العمل قرآن کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ سے آپؐ پر نازل فرمایا۔