نہ ان کے گردو پیش اور ماحول میں اچھی اردو بولی اور لکھی جاتی ہے۔ اردو میں جو کچھ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ یہ خود اردو کابھی معجزہ ہے اور اسلام کا بھی کہ لکھنے والے ایسی زبان میں لکھ رہے ہیں جو ان کی اپنی مادری زبان نہیں۔ نہ ان کے ماحول میں یہ زبان پوری صحت اور سلامت کے ساتھ نشوونما پارہی ہے۔ پھر بھی مصنف نے جس طرح اور جس انداز میں قادیانیت کو پیش کیا ہے۔ بہت ہی عمدہ ہے اور معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی اسے سمجھ سکتا ہے۔ البتہ جہاں علمی اور مذہبی اصطلاحات آئے ہیں۔ وہاں تو الفاظ کو آسان بنانا اچھے اچھوں کے بس کی بات نہیں۔
برما سے قادیانیت اور قادیانی فریب کو ختم کرنے کے لئے یہ اچھی کوشش ہے اور ہر طرح کی ہمت افزائی کی مستحق۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلی کتاب ہے جو ردقادیانیت میں چھپ رہی ہے۔ اس طرح کی چیزیں مختلف انداز میں وقتاً فوقتاً پیش ہونی چاہئیے۔ مصنف نے میرا یہ مشورہ بھی قبول کر لیا ہے کہ کتاب میں لاہوری قادیانیوں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور لکھا جائے۔ کیونکہ انگریزی خواں طبقہ اس پارٹی سے متاثر ہے۔ لاہوری پارٹی کے انگریزی لٹریچر کی وجہ سے لوگوں کو یہ فریب دیا جاتا ہے کہ اسلام کی بڑی خدمت یہ جماعت کر رہی ہے۔ حالانکہ قادیانی جراثیم کے ساتھ اسلام کی خدمت اگرچہ نظر فریب تو ہے۔ لیکن مفید ہرگز نہیں۔ بلکہ بعض مرتبہ تو اس کا اثر بہت ہی برا ہوتا ہے۔
کتاب کے ناشر محمد حسین صاحب کو بھی میں نے مشورہ دیا ہے کہ وہ ٹامل کے ساتھ قادیانیت کے خلاف اس قسم کے لٹریچر کو انگریزی اور برمی میں بھی شائع کریں۔ تاکہ برمی اور انگریزی داں طبقے کو لاہوری قادیانی اور مرزائی قادیانی دونوں قسم کے قادیانیوں سے نجات مل سکے۔ غلام رحمن صاحب ہمدم بھی شکریے کے مستحق ہیں جو کتاب کی ترتیب میں شریک رہے۔
کتاب کے مصنف اور ناشر دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک اہم مذہبی ضرورت کی طرف توجہ کی اور اسلام کی فصیل پر یا اس کی دیواروں کے نیچے جو زمین دوز حملے قادیانیوں کی طرف سے ہورہے ہیں۔ اس کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ وہ وقت کے اس فتنے سے نہ صرف ہوشیار رہیں۔ بلکہ ہمیشہ ان جراثیم کو ختم کرنے کے لئے پوری طرح تیار رہیں۔
مولانا ابراہیم احمد مظاہری!
صدر مرکزی جمعیت علماء برما رنگون
۲۹؍محرم الحرام ۷۷۰ھ، مطابق ۲۶؍اگست ۱۹۵۷ء