پیش لفظ
برما میں مدت ہائے دراز سے قادیانی تحریک موجود ہے اور وہ اپنے طور پر مسلمانوں کو مرزاغلام احمد قادیانی کے مذہب میں لانے کی کوشش کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ مرزامحمود قادیانی کی مرزائی پارٹی اور محمد علی لاہوری کی لاہوری پارٹی یعنی دونوں قسم کے قادیانیوں کی سرگرمیاں اگرچہ مسلمانوں کو بڑی تعداد میں قادیانی بنانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ لیکن وہ چور دروازے سے اسلام پر ضرور حملہ کر رہی ہیں اور اکاد کا کوئی نہ کوئی ان کے جال میں پھنس ہی جاتا ہے۔ یہ لوگ جب مسلمانوں کو وسیع پیمانے پر قادیانی بنانے میں کامیاب نہیں ہوتے تو روپئے کا لالچ، نوکری اور ملازمت کا فریب اور اقتصادی امداد کے بہانے کمزور ایمان والوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ اگرچہ اس تحریک کی نوعیت برما گیر نہیں۔ لیکن قادیانیت بجائے خود اسلام کے لئے اتنی مہلک بیماری ہے کہ اس سے معمولی غفلت برتنے کا نتیجہ بھی خطرناک ہوسکتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اتحادی فوج میں کچھ قادیانی برما آئے اور کچھ تاجروں کے بھیس میں قادیانی ہندوستان وپاکستان سے آئے۔ ان قادیانیوں نے برما میں مقیم قادیانیوں کی تحریک کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ ان کے مبلغ آئے۔ مبلغ اور لٹریچر سمندر پار سے آیا۔ اس کے علاوہ جنوری ۱۹۴۸ء میں برما کی آزادی کی تقریب میں شرکت کے لئے حکومت پاکستان کے سابق قادیانی وزیر خارجہ سرظفراﷲ خان آئے۔ اس کی وجہ سے اس تحریک میں کچھ جان پیدا ہوئی۔ لیکن مسلمانوں کی بروقت بیداری نے اس دشمن اسلام تحریک کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔ برما کے علمائ، تعلیم یافتہ طبقہ اور تاجروں میں بیداری آئی اور آخر کار قادیانیت کو کامیاب ہونے نہیں دیاگیا۔
اس بیداری میں سب سے اہم پارٹ اور سب سے بڑا حصہ ایک نومسلم اور جدید الاسلام نوجوان محمد حسین نے لیا۔ جو اگرچہ دینی علم اور مذہبی معلومات کے اعتبار سے تو زیادہ آگے نہیں۔ لیکن اسلام کے قلعہ کو قادیانیت سے بچانے کا عظیم الشان جذبہ لے کر یہ نوجوان میدان میں آیا اور اس نے پوری طرح قادیانیت کا مقابلہ کیا اور آج بھی خدا کے فضل سے وہ مقابلہ کر رہا ہے۔ اس راہ میں اس نے جانی، مالی قربانی دی۔ جس کی بدولت قادیانیت کے خلاف مسلمانوں کا محاذ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ کتاب اسی نومسلم اور جدید الاسلام نوجوان کی کوشش کا نتیجہ ہے۔