اسی طرح اور بھی بکثرت انگریزی معمولی تین یا چار الفاظ کے مرکب جملے ہیں۔ جن کو مرزاقادیانی الہام بتاتے ہیں۔ ناظرین پر قبل ازیں آشکارا ہوا کہ مرزا خود تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار کو انگریزی سے کچھ واقفیت نہیں۔ لہٰذا مرزاقادیانی کے انگریزی الہام بھی بیہودہ ہیں اور بیہودہ گو شخص نبی نہیں ہوسکتا۔
اور تماشہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی کو مرتے دم تک بعض الہاموں کے معنی معلوم نہ ہوئے۔ ورنہ قادیانی مرزاقادیانی کی تصریح پیش کردیں کہ ہوشعنا وغیرہ اور پرطوس وغیرہ کے معنی مرزاقادیانی کو معلوم ہوئے۔ یونہی رکیک تاویلات پیش کر کے وقت ضائع کرنا عاقل کا کام نہیں۔ آخر انصاف بھی تو کوئی چیز ہے۔ اگر حق کی جستجو ہے اور رضائے رب کی آرزو ہے تو یہی مرزاقادیانی کے دعویٰ کے بطلان کے لئے کافی ہے۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ مرزائی ایسے بیہودہ الہاموں پر ناز کرتے ہیں اور ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہیں۔ کیا یہی وہ الہام ہیں اور یہ وہ وحی بتائی جاتی ہے جو انسان کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی۔
اگر وحی اسی کا نام ہے تو یہ تو ایک جاہل کے کلام سے بھی بدتر ہے۔ جب مرزاقادیانی خود اس کو نہیں جانتا اور نہ یہ معلوم ہے کہ کس زبان کے الفاظ ہیں تو ان سے فائدہ کیا ہوا۔ بلکہ عبث اور ردی الہام ہوئے۔ اگر ان کو ربانی کلام کہا جاوے تو خدا پر بہت بڑا عیب اور الزام لازم آتا ہے۔ نعوذ باﷲ! اور اگر ربانی کلام نہیں اور یقینی نہیں ہے تو مرزا کاذب ہے۔ کیا ایسا انسان نبی بن سکتا ہے۔ جس کے نہ اخلاق میں شائستگی ہو نہ گفتار میں پاکیزگی ہو۔ نہ اقوال میں اتحاد ہو نہ امر واحد پر استقرار ہو۔ انگریزی حکومت کا خدمت گار ہو۔ ان پر دل وجان سے نثار ہو۔ مسلمانوں کو گالیاں دیتا ہو۔ ان پر لعنت بھیجتا ہو۔ افیون کھاتا ہو۔ سنکھیا کا دلدادہ ہو۔ انبیاء علیہم السلام کو زناکار اور کسبی عورتوں کی اولاد بتاتا ہو۔ معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ کہ ایسا شخص نبی ہو۔ اگر نبی ایسا ہو اور نبوت ایسے اخلاق کریمہ والے انسان کو مل سکے تو تمام افیونی اور فحاشی اورلعان نبی ہونے کا دعویٰ کریںگے اور طرہ یہ کہ اس پر مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ:
’’اگر یہ تمام مخالف مشرق ومغرب کے جمع ہو جائیں تو میرے پر کوئی اعتراض ایسا نہیں کر سکتے کہ جس اعتراض میں گذشتہ نبیوں سے کوئی نبی شریک نہ ہو۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۷، خزائن ج۲۲ ص۵۷۵)
تو اگر یہی حال انبیاء کا ہو تو لازم آتا ہے کہ نبوت سے بدتر کوئی چیز نہیں۔ پس