۴… سوال…’’کیا غیر احمدی متوفی والدین کے لئے نماز میں دعائے مغفرت جائز ہے؟
جواب… دعا تو جنازہ ہے اور جنازہ ناجائز۔ اس کو خدا کے حوالے کرو۔‘‘
(الفضل مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۱۵ئ)
مختصر یہ کہ مرزاقادیانی اور ان کی ذریات وحشرات کا برتاؤ جو مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ ان قلیل محولہ عبارات سے اچھی طرح روشن ہو جاتا ہے۔ غریب مسلمانوں کو شیطان قرار دیا۔ بدذات کہہ دیا۔ ملعون فرمایا۔ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔ لیکن ان کا قصور کیا ہے۔ بس اتنا کہ قادیانی دعویٰ کو جھوٹ جانتے ہیں۔ لیکن اس علت میں تو انگریز بھی شریک تھے۔ کیا مسلمان اور ان کے علمائے کرام انگریزوں سے بھی بدتر اور اکفر ہیں کہ انگریزوں کو تو مرزاقادیانی اپنا آقا اور پیشوا سمجھتے ہیں اور ان کو اپنے لئے رحمت بتاتے ہیں۔ ان کی چاپلوسی اور خوشامدیں ہورہی ہیں۔
اپنے کو ان میں سے اور ان کو اپنے میں سے بتاتا ہے اور اسلام کے دو حصوں میں سے ایک حصہ ان کی اطاعت قرار دی۔ لیکن مسلمانوں پر یہ عتاب اور یہ قہر۔ سچ ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ ان سے دل میں خوف ہے۔ رعب ہے۔ ان کی حکومت ہے اور یہاں غلامی ہے اور مجبوری ہے۔ محکومی اور ماتحتی ہے۔ ورنہ پھر یہ تفرقہ اور یہ ترجیح بلا مرجح کہاں سے۔ اگر ان خدمات کو بیان کیا جائے جو مرزاقادیانی نے انگریزی حکومت اور برٹش امپائر کے ادا کئے ہیں تو ایک طویل دفتر کی ضرورت ہے۔ لیکن ناظرین کی واقفیت کے لئے یہاں قدرے بیان کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ:
اسلام کے دو حصے
’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے۔ سو میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں یہ ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا کی اطاعت کریں۔ دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہے۔ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سائے میں ہمیں پناہ دی ہے تو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے… سو اگر ہم حکومت برطانیہ سے سرکشی کریں تو گویا اسلام اور خدا اور رسول سے سرکشی کرتے ہیں۔ اس صورت میں ہم سے زیادہ بددیانت کون ہوگا۔ گورنمنٹ کی توجہ کے لائق۔‘‘
(شہادت القرآن ص۸۴،۸۵، خزائن ج۶ ص۳۸۰،۳۸۱)