گرفتار ہو اور درشت بات کا ذرا بھی متحمل نہ ہوسکے اور جو امام زماں کہلا کر ایسی کچی طبیعت کا آدمی ہو کہ ادنیٰ بات سے منہ میں جھاگ آتا ہے۔ آنکھیں نیلی پیلی ہوتی ہیں وہ کسی طرح امام زماں نہیں ہوسکتا۔‘‘ (ضرورۃ الامام ص۸، خزائن ج۱۳ ص۴۷۸)
اس سے معلوم ہوا کہ امام زماں کے لئے ضروری ہے کہ شدائد اور تکالیف کا متحمل ہو اور جس میں تحمل وبرداشت کا مادہ نہ ہو وہ ہرگز امام زمان نہیں ہوسکتا۔ نیز مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ: ’’کسی کو گالیاں مت دو،گو وہ گالیاں دیتا ہو۔‘‘ (کشتی نوح ص۱۱، خزائن ج۱۹ ص۱۱)
اب ہمیں مرزاقادیانی کے مندرجۂ بالا اقوال کا لحاظ کرتے ہوئے یہ دیکھنا ہے کہ جناب مرزاقادیانی اپنے فتوؤں کے اور انہیں اقوال کے معیار پر پورے اترتے ہیں یا صرف مرزاقادیانی فرماتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔
مرزاقادیانی کی نظر عنایت مسلمانان عالم پر
’’ان العدی صار واخنازیر الفلاء ونسائہم من دونہن الاکلب‘‘ ہمارے مخالف جنگلوں کے سور ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بدتر ہیں۔ (نجم الہدیٰ ص۵۳، خزائن ج۱۴ ص۵۳)
’’تلک کتب ینظر الیہا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ وینتفع من معارفہا ویقبلنی ویصدق دعوتی الاذریۃ البغایا الذین ختم اﷲ علے قلوبہم‘‘ یعنی جس نے میری دعوت قبول نہ کی وہ بازاری عورت اور زانیہ کا بیٹا ہے۔
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۸، خزائن ج۵ ص۵۴۷،۵۴۸)
قادیانی اکثر جواب دیتے ہیں کہ ذریۃ البغایا کے یہ معنی نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے معنی ’’ہدایت اور رشد سے دور‘‘ ہیں۔ جیسا تاج العروس میں موجود ہے اور نیز یہ نیک علما اور شریف لوگوں کے حق میں نہیں ہے۔ بلکہ شریر لوگوں کے بارے میں یہ فرمایا ہے۔ لیکن یہ سب حیلہ بازیاں ہیں اور ایک صریح مغالطہ ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی سے ان کے امتی زیادہ عاقل نہیں ہیں۔ پس جو معنی مرزاقادیانی نے اس لفظ کا کیا ہے۔ وہی معنی معتبر ہوگا۔ نہ کہ ان کی امت کے رکیک معانی۔ اب ملاحظہ ہو کہ مرزاقادیانی نے اس لفظ کے معنی اپنی متعدد کتابوں میں یہی لکھے ہیں جو ہم کرتے ہیں۔ چنانچہ (نور الحق حصہ اوّل ص۱۲۳، خزائن ج۸ ص۱۶۳، خطبہ الہامیہ ص۱۷، خزائن ج۱۶ ص۴۹، انجام آتھم ص۲۸۲، خزائن ج۱۱ ص۲۸۲) میں مرزاقادیانی نے خود بدولت یہی ترجمہ کیا ہے۔ اب خواہ مخواہ لغت کی کتابوں کو پیش کرنا اور ان کی آڑ میں اپنا الّو سیدھا کرنا مرزاقادیانی کو رنجیدہ کرنا اور ان کی