زبانیں ساون کی بارش کی طرح ان پر برستی رہتی ہیں۔ لیکن جب مودودی صاحب کی غلط تحقیق سامنے آتی ہے تو ان کے مرکزی کارکنوں تک کی زبانوں پر تالے لگ جاتے ہیں اور ان کو لب کشائی کی جرأت ہی نہیں ہوتی۔ حیرانگی ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دوسرے لوگوں کے عیب اور ان کی قابل گرفت کی باتیں تو ان کے دور سے محسوس ہو جاتی ہیں۔ مگر اپنے عیوب نظر نہیں آتے۔ چنانچہ اسی رسالہ میں آگے چل کر مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’جانسن نے روس سے رجوع کر کے یہ اطمینان حاصل کیا کہ وہ عربوں کی مدد کے لئے عملاً کوئی مداخلت نہ کرے گا۔ اس کے بعد کہیں جاکر اسرائیل پر وحی نازل ہوئی کہ اب عرب ملکوں پر حملہ کر دینے کا مناسب موقع آگیا ہے۔‘‘ (ص۱۶)
یہ ٹھیک ہے کہ: ’’ان الشیاطین لیوحون الیٰ اولیائہم (الانعام:۱۲۱)‘‘ میں وحی کی اسناد شیاطین کی طرف بھی کی گئی ہے۔ لیکن وحی کے نازل ہونے کا لفظ عموماً حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ مختص ہے۔ غیر کے لئے کسی صورت میں یہ مستحسن نہیں ہے اور وحی نازل ہوئی کے جملہ پر حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ اس لفظ پر چونکئے نہیں شیاطین بھی اپنے اولیاء پر وحی کیا کرتے ہیں۔ مودودی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ وحی کیا کرتے ہیں کا اور مفہوم ہے اور وحی نازل ہوئی کا اور مفہوم ہے۔ دوسرے لوگوں کو تو صحیح اعتراض پر بھی چونکنے سے منع کرتے ہیں۔ لیکن خود صریح غلطی پر بھی چونکنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں ؎
غیر کی آنکھوں کا تنکا تجھ کو آتا ہے نظر
دیکھ اپنی آنکھ کا غافل ذرا شہتیر بھی
حضرت برائؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ: ’’کان رسول اﷲﷺ صلّٰی نحوبیت المقدس ستۃ عشر شہراً اوسبعۃ عشر شہراً (بخاری ج۱ ص۵۷، باب التوجہ نحوالقبلۃ حیث کان)‘‘
اور ان کی ایک روایت میں یوں آتا ہے کہ: ’’صلینا مع رسول اﷲ نحوبیت المقدس ستۃ عشر شہراً اوسبعۃ عشر شہراً ثم صرفنا نحو الکعبۃ (مسلم ج۱ ص۲۰۰، باب تحویل القبلۃ من القدس الیٰ الکعبۃ)‘‘ ہم نے آنحضرتﷺ کے ساتھ سولہ یا سترہ ماہ رخ کر کے نماز پڑھی ہے پھر ہم کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے۔
ان صحیح روایتوں سے معلوم ہوا کہ قبلۂ اوّل کی طرف آنحضرتﷺ نے صرف سولہ یا